جی ہاں واقعی، اس وقت جب امریکا میں اسکولوں اور دفاتر کی بندش کے ساتھ ساتھ سودا سلف اور صفائی کی مصنوعات کے لیے لوگ پاگل ہورہے ہیں ، وہاں امریکا بھر میں ہتھیاروں کی خریداری بھی عروج پر پہنچ گئی ہے ۔
برطانوی روزنامے گارڈین نے ایک رپورٹ میں یہ دلچسپ انکشاف کیا، جس میں شیرولیٹ میں اسلحے کے ایک تاجر لیری ہیٹ نے بتایا کہ وائرس کے پھیلاﺅسے کاروبار میں اتنا اضافہ ہوا ہے جتنا انہوں نےکاروباری زندگی کی 6 دہائیوں کے دوران صرف 2012 میں سینڈی ہک قتل عام کے بعد ہی دیکھا تھا ۔
انہوں نے بتایا 'معیشت میں گراوٹ، وبا، جرائم، سیاست، آپ نے سب کو ایک جگہ جمع کردیا اور اب یہ حال ہوچکا ہے'۔
ان کے بقول بیشتر افراد اسالٹ رائفلوں کے خواہشمند ہیں جس سے عندیہ ملتا ہے کہ وہ اپنے اور گھروالوں کے تحفظ کے خواہشمند ہیں۔
ریاست کیلیفورنیا میں ہفتہ وار تعطیلات کے دوران اسلحے کی ایک دکان کے باہر اس کے کھلنے سے قبل لمبی قطار دیکھنے میں آئی جس کی ویڈیو ٹوءٹر پر وائرل بھی ہوئی ۔
وہاں موجود ایک خریدار جان گور نے لاس اینجلس ٹائمز کو بتایا 'سیاستدان اور اسلحے کے مخالف افراد ہ میں طویل عرصے سے کہتے آرہے ہیں کہ ہمیں ہتھیاروں کی ضرورت نہیں ، مگر اب متعدد افراد حقیقی معنوں میں خوفزدہ ہیں'۔
اسلحہ فروخت کرنے والی ایک آن لائن ویب سائٹ نے بتایا ہے کہ فروری کے وسط سے مارچ کے اوائل تک ہتھیاروں کی فروخت میں 68 فیصد اضافہ ہوا ہے اور ایسا اس سے پہلے صرف ایک بار 2012 میں ہی ہوا تھا ۔
مگر اسلحے کو خریدنے کا یہ سلسلہ کئی ہفتوں سے جاری ہے اور ویسٹ کوسٹ میں چینی نژاد امریکی شہریوں نے ہتھیاروں کو اس خدشے کے تحت خریدا ہے کہ چین سے دنیا میں پھیلنے والے اس وائرس کے نتیجے میں وہ نسلی تشدد کا ہدف نہ بن جائیں ۔
جنوبی کیلیفورنیا میں اسلحے کی ایک دکان کے مالک ڈیوڈ لیو نے بتایا کہ ہتھیاروں کی فروخت میں گزشتہ 2 ہفتوں کے دوران 5 گنا اضافہ ہوچکا ہے اور اب سپلائرز کے پاس بھی اسٹاک ختم ہوگیا ہے ۔