صحت

کورونا وائرس سے تحفظ پر پھیلنے والے ابہام اور ان کی حقیقت

دسمبر 2019 میں چین سے پھیلنے والی وبا اس وقت دنیا کے 160 ممالک تک پھیل چکی ہے مگر اس کا کوئی علاج موجود نہیں۔

دسمبر 2019 میں چین کے شہر ووہان سے شروع ہونے والے کورونا وائرس سے متعلق نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے ترقی یافتہ اور میڈیکل سائنس میں سرفہرست ممالک میں بھی غلط معلومات اور غیرمصدقہ اطلاعات پھیل رہی ہیں اور دنیا کے کروڑوں انسان اب تک اس وبا کو بائیولوجیکل حملہ بھی تصور کر رہے ہیں۔

دنیا کے 160 ممالک میں 17 مارچ کی شام تک ایک لاکھ 82 ہزار سے زائد افراد کو متاثر کرنے والے وائرس کے حوالے سے نہ صرف عام افراد اور کم تعلیم یافتہ بلکہ انتہائی پڑھے لکھے اور طبی معاملات کے حوالے سے اچھی معلومات رکھنے والے افراد بھی کورونا وائرس سے متعلق انٹرنیٹ پر پھیلنے والی غلط معلومات کو درست مان رہے ہیں لیکن درحقیقت ایسی معلومات کا سچائی سے کوئی تعلق نہیں۔

دنیا کے کسی ملک میں کورونا وائرس سے بچنے کے لیے شراب کو دوا سمجھا رہا ہے تو کہیں گائے کے پیشاب کو اس کا علاج مانا جا رہا ہے، کہیں لہسن اور ادرک کھانے کو اس سے شفا کا ذریعہ سمجھا جا رہا ہے، کہیں گرم پانی سے نہانے، منہ اور ناک دھونے کو وائر سے حفاظت کی کنجی بتایا جارہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس کے حوالے سے دنیا میں پھیلنے والی افواہیں

دنیا کے کچھ ممالک میں سمجھا جا رہا ہے کہ گرمیاں آتے ہی کورونا وائرس ختم ہوجائے گا اور کہیں یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ سخت سردی میں کورونا وائرس سکڑ کر ختم ہوجاتا ہے۔

کچھ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ ماسک پہننے اور ہاتھوں کو دھونے سے وہ محفوظ رہیں گے اور ساتھ ہی وہ خود کو گھر میں 2 ہفتوں تک قید کرنے سے بھی اس وبا سے دور رہیں گے۔

کہیں خبریں آرہی ہیں کہ اسرائیل، امریکا، آسٹریلیا، جرمنی اور برطانیہ نے کورونا وائرس کی ویکسین تیار کرلی ہے اور اب بس چند ہی دن میں مذکورہ ویکسین سامنے آنے والی ہے اور پھر وبا دیکھتے ہی دیکھتے قابو میں آ جائے گی۔

کہیں تو یہ طریقے بھی بتائے جا رہے ہیں کہ گھر میں ہی کورونا کا ٹیسٹ کریں اور 10 سیکنڈز تک اپنی سانس روک کر دیکھیں، اس دوران اگر آپ کو کھانسی آگئی تو سمجھ لیں کہ آپ مذکورہ وائرس کے شکار ہیں اور اگر کھانسی نہیں آئی یا اور تکلیف نہ ہوئی تو آپ خود کو آزاد سمجھیں۔

مندرجہ بالا غلط معلومات، افواہیں اور ابہام کورونا وائرس سے متعلق پھیلنے والے ان چند غیر حقیقی حقائق میں سے ہیں جنہیں دنیا کے کروڑوں افراد انٹرنیٹ پر دیکھ کر تیزی سے غلط معلومات کا شکار بن رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس سے متعلق پاکستان میں پھیلنے والی افواہیں

ایسی معلومات پھیلنے کے بعد عام افراد کے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر یہ سب کچھ افواہیں ہیں تو حقائق کیا ہیں؟

ہم اس مضمون میں ایسے ہی کچھ حقائق کو ماہرین اور عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) سمیت شعبہ صحت پر تحقیقات سے متعلق دنیا میں نمایاں مقام رکھنے والی جامعات کی جانب سے دیے گئے جوابات پیش کرکے عام افراد کو حقائق سے آگاہ رکھنے کی کوشش کریں گے۔

پہلی اور اہم بات - کورونا کی اب تک کوئی ویکسین موجود نہیں

دنیا میں کہیں بھی 17 مارچ کی دوپہر تک کورونا وائرس سے تحفظ کی کوئی ویکسین علاج کے لیے سامنے نہیں آسکی تھی اور نہ ہی کم سے کم اگلے 12 سے 18 ماہ تک ایسی کوئی ویکسین سامنے آنے کی امید ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس کی ویکسین کی انسانوں پر آزمائش شروع

البتہ امریکا، اسرائیل، برطانیہ اور آسٹریلیا سمیت دیگر ممالک کے سائنسدان کورونا وائرس سے بچنے کی ویکسین تیار کرنے میں مصروف ہیں اور جب کہ امریکا نے دیگر ممالک سے بازی لے جاتے ہوئے 16 مارچ 2020 سے کورونا وائرس کی ایک ویکسین کی انسانوں پر آزمائش شروع کردی تھی۔

امریکی ماہرین نے جہاں ویکسین کی انسانوں میں آزمائش شروع کردی ہے، وہیں انہوں نے پہلے ہی واضح کردیا ہے کہ اس مرحلے میں 18 ماہ کا وقت لگ سکتا ہے اور اس کے بعد بھی اس بات کی گارنٹی نہیں دی جاسکتی کہ ویکسین کامیاب ہوگی یا نہیں اور اس کی کامیابی کا نتیجہ آزمائشی رضاکاروں کے ٹیسٹ سے ہوگا۔

اسی طرح دیگر ممالک بھی اگر ویکسین بنانے میں کامیاب جاتے ہیں تو اسے بھی جانوروں میں آزمائش کے بعد انسانوں پر آزمایا جائے گا اور اس مرحلے میں 12 سے 18 کا وقت لگے گا اور پھر جاکر کہیں کوئی ویکسین دستیاب ہوگی۔

ویکسین نہیں تو کورونا کا علاج کیسے ہو رہا ہے؟

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں کہیں بھی کورونا وائرس کا مناسب یا درست علاج موجود نہیں، تاہم ایسا نہیں ہے کہ اس وائرس کو دوسری دوائیوں سے نہیں روکا جاسکتا۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق وائرس سے متاثرہ شخص کو دوران علاج ٹیسٹ کی بنیاد پر روایتی طریقہ کار کے تحت علاج فراہم کیا جاتا ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ اسے بیماری سے نجات دلائی جائے اور اس ضمن میں عالمی ادارہ دنیا بھر کے صحت سے متعلق اداروں سے مل کر کام کر رہا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق اس وقت کورونا وائرس کے علاج کے لیے کوئی خصوصی دوائیاں تجویز نہیں کی جا سکتیں، تاہم ماہرین مریض کی حالت کے مطابق مختلف دوائیاں استعمال کرسکتے ہیں۔

اسی سوال کے جواب میں پاکستان کی وبائی امراض کی ماہر ڈاکٹر نسیم صلاح الدین نے ڈان کو بتایا کہ اس وائرس کا ٹیسٹ ’ریئل ٹائم‘ (آر ٹی) ’پولیمرائز چین ری ایکشن‘ (پی آر سی) بلڈ ٹیسٹ کے ذریعے ہوتا ہے۔

ڈاکٹر نسیم صلاح الدین نے مزید بتایا کہ مریض کے ٹیسٹ کی بنیاد پر کورونا وائرس کے شکار مریض کا علاج کیا جاتا ہے، تاہم عام طور مریض کو عام بخار، نزلہ و زکام کی دوائیاں دی جاتی ہیں اور اسے نگرانی میں رکھا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس کا علاج، سائنسدانوں کی نئے طریقوں میں اہم پیشرفت

انہوں نے کہا کہ اگر کورونا وائرس یوں ہی یا اس سے کم رفتار میں ایک سے ڈیڑھ سال تک چلا تو دنیا کی کوئی نہ کوئی میڈیکل کمپنی اس کی ویکسین تیار کر لے گی اور عین ممکن ہے کہ ابتدائی طور اس کی صرف عام ویکسین ایجاد کی جائے اور بعد ازاں اس کی اینٹی وائرل ویکسین تیار ہو۔

اسی طرح دنیا کے دیگر ممالک جن میں امریکا، نیدر لینڈ اور بیلجیم جیسے ممالک شامل ہیں، انہوں نے بھی مذکورہ وائرس کا علاج پہلے سے ہی موجود دوائیوں اور ٹیسٹ کے ذریعے ڈھونڈ نکالا ہے، تاہم وہ علاج کتنا مستند ہے اس کا اندازہ فوری طور پر نہیں لگایا جا سکتا۔

ویکسین نہ ہونے کے باوجود چین اور دنیا بھر میں صحت مند ہونے والے 80 ہزار مریض صحت یاب ہوچکے ہیں۔

کورونا وائرس پر اینٹی بائیوٹک اثر کرتی ہیں؟

عام طور دنیا بھر میں یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا کورونا وائرس پر اینٹی بائیوٹک دوائیاں اثر کرتی ہیں؟ جس پر عالمی ادارہ صحت نے واضح کیا ہے کہ مذکورہ وائرس پر کوئی اینٹی بائیوٹک دوائی اثر نہیں کرتی۔

ساتھ ہی ڈبلیو ایچ او نے واضح کیا ہے کہ اگر کسی کورونا وائرس کے مریض کو دوران علاج اینٹی بائیوٹک دی جاتی ہیں تو وہ بیکٹیریا کو روکنے والی اینٹی بائیوٹک ہوتی ہیں۔

ویکسین اور مناسب علاج نہیں تو عام انسان کیا کرے؟

اگرچہ کورونا کے علاج کے لیے ویکسین اور مخصوص علاج کا طریقہ کار موجود نہیں تاہم جہاں اس کا علاج دوائیوں سے کیا جا رہا ہے، وہیں عالمی ادارہ صحت اور دیگر صحت سے متعلق اداروں ماہرین نے لوگوں کو اس وائرس سے بچنے کے لیے چند اہم تجاویز دی ہیں۔

ماہرین اور اداروں کی جانب سے دی گئی تجاویز میں لوگوں کو احتیاط کرنے کا کہا گیا ہے اور احتیاط کے کئی طریقے ہوسکتے ہیں جن میں بار بار ہاتھوں کا دھونا، ماسک پہننا، لوگوں سے دور رہنا اور تھوڑی سی بھی بیماری کی وجہ سے گھر تک محدود رہنا شامل ہیں۔

عام لوگ ہاتھوں کو دھونے کے بجائے آٹومیٹک ہینڈ ڈرائر (ہاتھوں کو برقی ہوا کے ذریعے خوش کرنا) کا استعمال کرتے ہیں، تاہم عالمی ادارہ صحت نے اس عمل کو غیر اہم قرار دیا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق کورونا وائرس سے اس وقت ہی بچا جاسکتا ہے جب ہاتھوں کو صابن یا الکوحل سے تیار ہاتھ دھونے والی اشیا اور پانی سے دھویا جائے اور ہاتھوں کو محفوظ طریقے سے دھونے کے بعد انہیں تولیے یا ہوا کے ذریعے خشک کیا جائے۔

عالمی ادارہ صحت نے اس بات سے بھی سختی سے لوگوں کو منع کر رکھا ہےکہ برقی شعاعوں سے ہاتھوں کو صاف کرنے کی غلطی نہ کی جائے، کیوں کہ اس عمل سے کورونا وائرس سے محفوظ نہیں رہا جا سکتا بلکہ یہ عمل جلد کے لیے نقصان کار ہو سکتا ہے۔

ہاتھ دھونے کے مکمل فوائد یہاں پڑھیں

کورونا وائرس کی علامات کیا ہیں؟

عالمی ادارہ صحت نے کورونا وائرس کی علامات میں بخار، سانس لینے میں دشواری، نمونیا اور گردوں کے فیل ہونے کو شامل کیا ہے، جس وجہ سے کسی بھی متاثرہ شخص کی اچانک موت بھی ہوسکتی ہے۔

اگرچہ عالمی ادارہ صحت نے کورونا وائرس کی علامات میں بخار کے پیمانے کی قید نہیں رکھی تاہم بعض ماہرین صحت اور چین میں متاثر ہونے والے افراد کے تجزیے کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ اگر کسی بھی شخص کو بخار 88 فیصد، خشک کھانسی 68 فیصد، تھکاوٹ 38 فیصد، تھوک کے ساتھ کھانسی یا گاڑھے بلغم کے ساتھ 33 فیصد، سانس لینے میں مشکل 19 فیصد، ہڈی یا جوڑوں میں تکلیف 15 فیصد، گلے کی سوجن 14 فیصد ، سردرد 14 فیصد،ٹھنڈ لگنا 11 فیصد، کھانسی میں خون آنا ایک فیصد اور آنکھوں کی سوجن ایک فیصد جیسی علامات ہیں تو عین ممکن ہے کہ وہ کورونا وائرس کا شکار ہو۔

کورونا وائرس کی مکمل علامات کے حوالے سے تفصیل یہاں دیکھیں

کورونا وائرس کی علامات ظاہر ہونے کے حوالے سے امریکا میں ہونےو الی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کورونا وائرس کے مرض میں علامات 5 سے 12 دن میں نظر آنے لگتی ہیں، تاہم بعض مرتبہ اس میں زیادہ وقت بھی لگ سکتا ہے۔

حال ہی میں چین کے شہر ووہان کی ایک یونیورسٹی کی جانب سے شائع کی گئی تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ کورونا وائرس کے شکار انتہائی تشویش ناک حالت میں مبتلا مریض کی موت تقریبا 19 دن میں ہوسکتی ہے۔

کیا تھرمل اسکینر کورونا وائرس کے مریض کی شناخت کر سکتا ہے؟

کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلنے کے بعد عام طور پر ایئرپورٹس سمیت شاپنگ مالز میں انتظامیہ نے تھرمل اسکینرز نصب کیے ہیں جن سے متاثرہ افراد کی شناخت کی جا رہی ہے، تاہم عالمی ادارہ صحت کے مطابق تھرمل اسکینرز صرف مخصوص متاثرہ افراد کی شناخت کر سکتے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق تھرمل اسکینرز صرف بخار والے مریضوں کی شناخت کرتے ہیں اور اگر کسی کورونا وائرس کے مریض کو بخار نہ ہو تو مذکورہ اسکینرز متاثرہ شخص کی بیمار کے طور پر شناخت نہیں کرتے۔

کیا گرمی میں کورونا وائرس نہیں پھیلے گا یا ختم ہوجائے گا؟

انٹرنیٹ پر یہ غلط خبر عام ہےکہ گرمیوں میں اور خاص طور پر جنوبی ایشیائی اور افریقی ممالک کی گرمیوں میں کورونا وائرس نہیں پھیلے گا یا ختم ہوجائے گا۔

تاہم اس حوالے سے عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ یہ خیال غلط ہے کہ موسم گرما کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکے گا، ادارے کے مطابق تاحال اس بات کے شواہد نہیں ملے کہ کورونا وائرس کسی بھی موسم کی وجہ سے ختم ہو سکتا ہے یا اس کا پھیلاو رک سکتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت نے اس حوالے سے دنیا بھر کے لوگوں کو ہدایت کر رکھی ہے کہ وہ موسم کے حوالے سے کورونا کے پھیلنے یا نہ پھیلنے جیسی افواہوں پر خیال کرنے کے بجائے احتیاطی تدابیر اپنائیں اور اپنا منہ ڈھاپ کر رکھیں، ہاتھ دھوتے رہے، بیمار ہوں تو لوگوں سے دور رہیں اور اگر بیمار دیکھیں تو اس سے فاصلے پر رہیں۔

ساتھ ہی عالمی ادارہ صحت نے یہ بھی واضح کردیا ہےکہ اس بات کے بھی کوئی ثبوت نہیں ملے کہ سخت سردیاں اور ژالہ باری بھی کورونا وائرس کو ختم کردیتی ہے یا اس کے پھیلاو کو روکتی ہے۔

پاکستان کی گرمی میں کورونا وائرس کے پھیلنے کے حوالے سے وبائی امراض کی ماہر ڈاکٹر نسیم صلاح الدین کا کہنا تھا کہ کورونا کے گرمیوں میں پھیلنے یا نہ پھیلنے کے حوالے سے کوئی تحقیق سامنے نہیں آ سکی، چونکہ یہ وائرس سردیوں میں چین سے پھیلا تھا اور ابھی تک یہ دنیا کے مختلف ممالک میں پھیل رہا ہے جس سے یہ واضح نہیں ہو سکا کہ یہ وائرس گرمیوں میں پھیلے گا یا نہیں لیکن انہوں نے بتایا کہ انفلوئنزا سمیت تقریباً پھیلنے والا ہر وائرس گرمیوں میں کم ہو جاتا ہے۔

انہوں نے گرمیوں میں وائرس کے نہ پھیلنے کے اسباب بتاتے ہوئے بتایا کہ چونکہ گرمیوں میں کمروں میں پنکھے چل رہے ہوتے ہیں اور کھڑکیاں اور دروازے بھی کھلے ہوتے ہیں جس وجہ سے اگر کسی کمرے میں بہت سارے لوگ موجود ہوں تو بھی ان کے بخارات آرام سے کمرے سے باہر نکل جاتے ہیں جس وجہ سے وہاں موجود لوگ محفوظ رہتے ہیں جس سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ گرمیوں میں وائرس کم ہوجاتے ہیں۔

گرم یا نیم گرم پانی سے کورونا سے محفوظ رہا جا سکتا ہے؟

سوشل میڈیا پر تیزی سے پھیلنے والی غلط معلومات میں یہ بات بھی ہے کہ اگر گرم یا نیم گرم پانی سے نہایا جائے تو کورونا وائرس سے محفوظ رہا جا سکتا ہے مگر عالمی ادارہ صحت اس بات کو غلط مانتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق عام انسانی جسم کا درجہ حرات 36 سے 37 سیلسیس ہوتا ہے اور یہ خیال غلط ہے کہ گرم پانی سے نہانا کورونا وائرس سے بچاو کا سبب بن سکتا ہے، ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ البتہ گرم پانی سے نہانا انسانی جسم کے لیے نقصان دہ ضرور ہوسکتا ہے۔

جسم پر کلورین یا الکوحل اسپرے کرنے سے وائرس سے بچاجاسکتا ہے؟

عالمی سطح پر انٹرنیٹ پر یہ جھوٹی خبریں چل رہی ہیں کہ جسم پر الکوحل اور کلورین کا اسپرے کرنے سے کورونا وائرس سے بچا جا سکتا ہے۔

الکوحل اور کلورین خاص طرح کے کیمیکل ہیں، تاہم عالمی ادارہ صحت ایسی افواہوں کو غلط بلکہ انسانی جسم کے لیے نقصان کار قرار دیا ہے، ڈبلیو ایچ او کے مطابق مذکورہ دونوں کیمیکل کے اسپرے سے کورونا وائرس سے کوئی تحفظ نہیں ملتا البتہ مذکورہ اسپرے آنکھوں اور جلد کے لیے نقصان کار ہو سکتےہیں۔

کیا ناک کو صاف رکھنے سے کورونا نہیں ہوگا؟

سوشل میڈیا پر یہ غلط معلومات بھی پھیلائی جارہی ہیں کہ ناک کو نیم گرم نمکین پانی یا پھر میڈیکل اسٹور پر ملنے والے ناک کے اسپرے سے بھی کورونا سے بچا جا سکتا ہے، تاہم عالمی ادارہ صحت کے مطابق ایسا نہیں ہوتا۔

عالمی ادارہ صحت نے وضاحت کی کہ عام طور پر نزلہ، زکام جیسی علامات میں ناک میں اسپرے کرنے سے فائدہ ہوتا ہے۔

مچھر کے کاٹنے سے کورونا ہو سکتا ہے؟

ایک غلط خبر یہ بھی پھیل رہی ہے کہ کورونا وائرس بھی ملیریا اور ڈینگی کی طرح مچھر کے کاٹنے سے ہوجاتا ہے تاہم عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس بات کوئی شواہد نہیں ملے کہ مذکورہ وائرس مچھر کاٹنے سمیت دیگر مسائل سے ہوتا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق کورونا وائرس سانس کا وائرس ہے جو عام طور پر کسی متاثرہ شخص سے دوسرے شخص میں پھیلتا ہے، یہاں تک کے متاثرہ شخص کے نزلہ، زکام اور کھانسی کے بخارات سے بھی مذکورہ وائرس دوسرے کو متاثر کر سکتا ہے۔

نمونیا اور انفلوئنزا سے بچاؤ کی ویکسین کورونا سے بچاتی ہیں؟

عالمی سطح پر یہ باتیں پھیل رہی ہیں کہ نمونیہ سمیت انفلوئنزا سے بچاو کی ویکسین لگوانے سے کورونا وائرس سے بچا جا سکتا ہے تاہم عالمی ادارہ صحت اس سے انکار کرتا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق نمونیا اور انفلوئنزا سمیت دیگر بیماریوں کی ویکسین لگوانے سے کورونا سے نہیں بچا جا سکتا، کیوں کہ یہ وبا باالکل نئی ہے اور ان کا پرانی بیماریوں سے کوئی تعلق نہیں، البتہ سانس کی بیماریوں کی دوائیاں کورونا وائرس کے متاثرہ شخص کو دی جا سکتی ہیں۔

کیا لہسن، ادرک پیاز کھانے سے کورونا نہیں ہوتا؟

نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں یہ غلط معلومات تیزی سے پھیل رہی ہے کہ لہسن، ادرک اور پیاز کھانے سے کورونا وائرس سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔

تاہم عالمی ادارہ صحت نے واضح کیا کہ یہ بالکل غلط ہے اور لہسن کورونا وائرس سے نہیں بچاتا، عالمی ادارے کے مطابق اگرچہ لہسن میں پائے جانے والے اجزا کئی بیماریوں میں موثر ہیں تاہم لہسن کورونا وائرس سے تحفظ فراہم نہیں کرتا۔

اسی حوالےسے انسٹیٹوٹ آف پبلک ہیلتھ (آئی پی ایچ) پنجاب بھی کچھ دن قبل وضاحت کی تھی کہ اس بات کے کوئی بھی سائنسی شواہد موجود نہیں کہ لہسن اور پیاز کورونا وائرس سے محفوظ رکھتے ہیں،ادارے نے یہ بھی کہا تھا کہ مذکورہ چیزوں کے عرق بھی کورونا سے محفوظ نہیں رکھتے۔

کورونا وائرس صرف بزرگوں اور بچوں کو متاثر کرتا ہے؟

عام طور پر یہ ابہام اور غلط خبر بھی پھیلائی جارہی ہے کہ کورونا وائرس زیادہ تر عمر رسیدہ یعنی 50 سال سے بڑی عمر کے افراد یا پھر کم عمر بچوں کو متاثر کرتا ہے تاہم ایسا نہیں ہے بلکہ کورونا وائرس ہر عمر کے اور دونوں صنف کے افراد کو متاثر کر رہا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق کورونا وائرس ہر عمر کے افراد کو متاثر کرسکتا ہے، جب کہ یہ وائرس نہ صرف بڑوں اور بچوں کو متاثر کرسکتا ہے بلکہ پہلے سے بیمار افراد کو زیادہ نشانہ بنا سکتا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق جو افراد پہلے سے ہی سانس کی بیماریوں، نمونیا اور اسی طرح کے دیگر امراض میں مبتلا ہیں، کورونا وائرس انہیں آسانی سے نشانہ بنا سکتا ہے۔

کیا چین سے منگوائی گئی چیزوں سے وائرس ہو سکتا ہے؟

انٹرنیٹ پر ایسی باتیں بھی کہی جارہی ہیں کہ چین سے کوئی بھی چیز آن لائن منگوانے والے شخص کو کورونا وائرس ہو سکتا ہے، تاہم امریکا کی ہاپکنز یونیورسٹی کے مطابق ایسے شواہد نہیں ملے کہ چین سے چیزیں منگوانے والے افراد متاثر ہو سکتے ہیں۔

ماسک پہننا کورونا سے بچا سکتا ہے؟

کورونا وائرس کے سامنے آنے کے بعد دنیا بھر میں ماسک اور سینیٹائزر کی مانگ بڑھ گئی اور اس وقت دنیا سے ان کی قلت کی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔

زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ وہ ماسک پہنیں گے تو کورونا وائرس سے محفوظ رہ سکیں گے تاہم امریکا کی ہاپکنز یونیورسٹی کے مطابق اگرچہ ماسک حفاظت اور احتیاط کا سب سے اہم ذریعہ ہے تاہم ایسا بالکل نہیں کہ ماسک کورونا سے بچائے گا۔

ماسک کتنا اہم ہے اور یہ کورونا سے بچاتا ہے یا نہیں، مکمل احوال یہاں جانیں۔

یونیورسٹی کے مطابق عام طور پر ماسک طبی عملے یا بیمار افراد کو پہننا چاہیے، تاہم جن افراد کو کورونا وائرس سمیت دیگر طبی مسائل ہوں وہ بھی اس کا استعمال کر سکتے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے کہ صرف ماسک پہننے سے ہی لوگ کورونا سے بچ جائیں گے، اس کے لیے دیگر حفاظتی انتظامات بھی لازمی ہیں جن میں ہاتھوں کی صفائی بھی شامل ہے۔

کیا گوشت و سبزیاں کھانے سے کورونا کے امکانات بڑھ جاتے ہیں؟

سوشل میڈیا پر یہ غیر مصدقہ اطلاعات بھی عام کی جارہی ہیں کہ گوشت کھانے سے کورونا وائرس پھیلتا ہے تاہم وبائی امراض کی ماہر پاکستانی ڈاکٹر نسیم صلاح الدین نے سختی سے ان باتوں کو مسترد کیا کہ گوشت یا سبزی کھانے سے کورونا وائرس کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ گوشت اور سبزیوں کا کورونا وائرس کے پھیلاؤ یا اس کے امکانات بڑھانے سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی ماہرین نے لوگوں کو گوشت یا سبزی سے دور رہنے کے مشورے دہے ہیں۔

ماہر وبائی امراض کے مطابق ایسی افواہیں کم علمی کی بنیاد پر پھیلائی جا رہی ہیں۔

کیا 10 سیکنڈ تک سانس روک کر کورونا کا ٹیسٹ کیا جاسکتا ہے؟

انٹرنیٹ پر یہ خبر بھی چل رہی ہے اور حیرت ہے کہ اس کو معروف شخصیات بھی پھیلارہی ہیں کہ کورونا کا ٹیسٹ گھر میں بھی کیا جا سکتا ہے اور اس خبر کے مطابق کوئی بھی شخص جسے شک ہو کہ وہ کورونا کا متاثر ہے وہ محض 10 سیکنڈ تک اپنا سانس روکے گا تو اس پر وائرس کی علامات ظاہر ہوں گی۔

مذکورہ خبر کے مطابق اگر 10 سیکنڈز تک سانس روکے جانے پر کسی بھی شخص کو سینے میں تکلیف ہو یا سانس لینے میں دشواری ہو، یا اسے محسوس ہو کہ اس کے پھیپھڑوں میں کچھ مسائل ہو رہے ہیں تو وہ سمجھ جائے کہ وہ کورونا وائرس کا شکار بن چکا ہے۔

تاہم حقیقت میں ایسا نہیں، امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے امریکی ماہرین سے اس حوالے سے رائے لی اور انہوں نے بتایا کہ یہ باالکل غلط ہے کہ کورونا کا ٹیسٹ گھر پر محض 10 سیکنڈ میں ہی کیا جا سکتا ہے۔

امریکی ویب سائٹ سی نیٹ نے بھی اسی حوالے سے امریکی ماہرین کی رائے شامل کرتے ہوئے بتایا کہ کورونا وائرس کا ٹیسٹ صرف سانس روکے جانے سے نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے کئی ٹیسٹ ہوتے ہیں جب کہ 10 سیکنڈز تک سانس روکے جانے سے عام طور پر سانس کی بیماریوں اور پھیپھڑوں کے مریضوں کو مسائل ہو سکتے ہیں، اس لیے یہ سمجھنا کہ سانس روکے جانے کے وقت مسائل کا سامنا کرنے والے کورونا کا شکار ہیں یہ غلط خیال ہے۔

کیا زیادہ پانی پینا کورونا سے بچا سکتا ہے؟

سوشل میڈیا پر لوگ یہ باتیں بھی کررہے ہیں کہ چوں کہ کورونا منہ کے ذریعے ہی انسانی جسم میں داخل ہوتا ہے تاہم اگر بار بار پانی پیا جائے تو کورونا سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔

تاہم عالمی ادارہ صحت کے مطابق بار بار پانی پینے سے کورونا سے محفوظ نہیں رہا جا سکتا، البتہ یہ عمل صحت کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے، کیوں کہ انسانی جسم میں پانی کی اچھی مقدار اسے کئی بیماریوں سے محفوظ رکھتی ہے۔

چھینکنے کے وقت ہاتھ کے بجائے آستین دینا بہتر ہے؟

یہ غیر مصدقہ اطلاعات بھی پھیلائی جارہی ہیں کہ اگر کسی کو کھانسی آئے یا پھر اسے چھینکیں آئیں تو وہ ہاتھ کے بجائے آستین کا استعمال کرے اور وہ اپنے منہ کو آستین سے ڈھانپ لے۔

تاہم صحت سے متعلق امریکا و برطانیہ کے قومی اداروں کی تازہ رپورٹس کے مطابق ایسا کرنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے، کیوں کہ چھنکوں اور کھانسی کے بخارات کپڑے پر کئی گھنٹے تک زندہ رہ سکتے ہیں، اس لیے سب سے آسان طریقہ یہی ہے کہ کھانستے وقت منہ پر ہاتھ دیا جائے اور بعد ازاں 20 سیکنڈز تک ہاتھ کو دھویا جائے۔

خود کو رضاکارانہ طور پر قید کرنے سے ہی وائرس سے بچاسکتا ہے؟

عالمی ادارہ صخت کی جانب سے کورونا وائرس کو 11 مارچ کو عالمی وبا قرار دیے جانے کے بعد دنیا بھر میں کھیلوں کے ایونٹس ملتوی کرنے سمیت مذہبی عبادت گاہوں کو عارضی طور پر بند کردیا گیا جب کہ تعلیمی اداروں کو بند کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو گھروں میں رہنے کی ہدایت کی گئی۔

یہ باتیں عام کی جا رہی ہیں کہ خود کو گھروں میں رضاکارانہ طور پر قید کرنے سے ہی کورونا وائرس سے بچا جا سکتا ہے، تاہم امریکا کی ہاپکنز یونیورسٹی کے مطابق ایسا باالکل نہیں۔

یونیورسٹی کے مطابق اگر کورونا وائرس کے متاثرہ شخص سے 6 فٹ کی دوری پر بھی رہا جائے تو دوسرا شخص وائرس سے متاثر نہیں ہوتا، اس لیے یہ خیال کرنا ہے کہ خود کو قید کرنے سے ہی وائرس سے بچا جا سکتا ہے یہ درست نہیں۔

یونیورسٹی کے مطابق اگر کسی بھی شخص میں کسی بھی بیماری کی علامات ہیں اور وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ گھر تک محدود تو بھی اس کے لازمی ہے کہ وہ باقی افراد سے 6 فٹ کے فاصلے پر رہے اور یہ اصول ہر بیمار افراد کے لیے ہے کیوں کہ احتیاط سے ہی بیماری سے بچا سکتا ہے لیکن ایسا خیال کرنا کہ خود کو قید کرنے سے ہی محفوظ رہا جا سکتا ہے بالکل غلط ہے۔