یہ درحقیقت 19 ویں صدی کا طبی طریقہ کار ہے جسے پاسیو اینٹی باڈی تھراپی کہا جاتا ہے اور اسے 20 ویں صدی میں خسرہ، پولیو، انفلوائنزا اور mumps کی روک تھام میں موثر طریقے سے استعمال کیا گیا۔
امریکی یونیورسٹی کے ماہرین نے زور دیا کہ اس طریقہ کار کو اپنانے کے لیے کوئی تحقیق یا پیشرفت کی ضرورت نہیں، بلکہ اسے چند ہفتوں میں اپنایا جاسکتا ہے کیونکہ اس میں روایتی طریقہ کار انحصار کرنا ہوتا ہے۔
محققین کے مطابق اس مقصد کے لیے کورونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے مریضوں کو صحت یابی کے بعد خون کا عطیہ دینا ہوگا، اگرچہ یہ بحالی صحت کا مرحلہ ہوتا ہے مگر اس دوران بلڈ سیرم (خون کا پلازما) میں بڑی مقدار میں ایسی اینٹی باڈیز ہوسکتی ہیں جو اس نئے کورونا وائرس کے خلاف مزاحمت کرسکتی ہیں۔
ایک بار جب جسم وائرس کے خلاف ردعمل کے قابل ہوجائے گا تو ایسی اینٹی باڈیز کئی ماہ تک خون میں گردش کرتی رہیں گی اور ہوسکتا ہے کہ یہ دورانیہ انفیکشن کے بعد کئی برسوں کا ہو۔
محققین کے خیال میں یہ طریقہ کار صرف صحت یاب ہونے والے افراد کے لیے فائدہ مند نہیں بلکہ ان اینٹی باڈیز کو ایکسرٹ اور پراسیس کرنے کے بعد دیگر افراد کے جسموں میں انجیکٹ کرکے انہیں مختصر المدت تحفظ فراہم کیا جاسکتا ہے، جیسے کسی سنگین بیماری کے شکار افراد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے، متاثرہ فرد کے صحت مند گھروالوں کے لیے یا طبی عملے کی قوت مدافعت کو بڑھانے کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
اب تک 77 ہزار سے زائد کووڈ 19 کو شکست دے کر صحت یاب ہوچکے ہیں اور محققین کے مطابق ان کا خون اہم اینٹی باڈیز کے ذریعے دیگر کو مدد فراہم کرسکتا ہے، کیونکہ وائرس کے علاج اور ویکسینز کی تیاری میں ابھی کافی عرصہ درکار ہوسکتا ہے۔
خیال رہے کہ اس حوالے سے ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ یہ طریقہ کار لوگوں کو تحفظ دینے کے لیے کس حد تک موثر ثابت ہوسکتا ہے، مگر غیرمصدقہ رپورٹس کے مطابق چین میں اس طریقے پر پہلے ہی عمل کیا جارہا ہے۔
اس تحقیق کے نتائج جریدے دی جرنل آف کلینیکل انویسٹی گیشن میں شائع ہوئے۔