مزید کے لیے کلک کریں
رضوان اور ان جیسے دیگر نوجوانوں کو یہ بات جان لینی چاہیئے کہ ٹیلنٹ ہونا ایک الگ بات ہے لیکن صرف ٹیلنٹ کے سہارے کوئی کھلاڑی آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ کھلاڑی کو اپنا مقام بنانے کے لیے میدان میں کارکردگی دکھانے کی ضرورت ہے۔
اسلام آباد کی اننگ جیسے جیسے آگے بڑھی، ویسے ویسے رنز بنانے کی رفتار سست ہوتی گئی۔ کپتان شاداب خان جو اس ٹورنامنٹ میں اب تک اچھی بیٹنگ کرتے رہے ہیں اور 3 نصف سنچریاں بھی بنا چکے ہیں، آج وہ بھی کوئی خاطر خواہ کارکردگی پیش نہیں کرسکے اور صرف 12رنز بنا کر پویلین لوٹ گئے۔
حسین طلعت کے 37 رنز کی بدولت یونائیٹڈ نے اپنے مقررہ اوورز میں 6 وکٹوں کے نقصان پر 136 رنز بنائے۔ حسین طلعت نے 37 رنز ضرور بنائے لیکن ان کا اسکورنگ ریٹ سست رہا۔ حسین طلعت جو پاکستان سپر لیگ کے گزشتہ ایڈیشنز میں ایک کامیاب کھلاڑی کے طور پر سامنے آئے تھے لیکن بدقسمتی سے وہ کارکردگی کے لحاظ سے آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے جاتے جارہے ہیں، اور یہ ان کے مستقبل کے لیے بہت منفی ثابت ہوگا۔
جب ٹاس ہوا تو عماد وسیم نے تو بلا جھجک فیلڈنگ کرنے کا فیصلہ کیا لیکن دوسری طرف شاداب خان بھی پہلے بیٹنگ کرنے پر زیادہ مایوس نہیں تھے۔
ٹاس کے بعد بات کرتے ہوئے شاداب نے کہا کہ جیسے جیسے میچ آگے بڑھے گا تو وکٹ سلو ہوگی، اس لیے وہ ٹاس جیتتے، تب بھی بیٹنگ ہی کرتے۔ ٹاس کے وقت تو شاداب خان کی یہ بات کھسیانی بلی کھمبا نوچے لگ رہی تھی بلکہ کراچی نے جب بیٹنگ شروع کی اور جس تیزی سے رنز بننے لگے تو شاداب کی باتوں پر ہنسی بھی آنے لگی، مگر بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ شاداب خان اور اسلام آباد یونائیٹڈ نے پچ کا درست تجریہ کیا تھا۔
کراچی کنگز نے جب ہدف کا تعاقب شروع کیا تو شرجیل خان جارحانہ بیٹنگ کا شاندار مظاہرہ کیا اور صرف 14 گیندوں پر 4 چھکوں اور 3 چوکوں کی مدد سے 37 رنز کی اننگ کھیلی۔ جس وقت شرجیل خان آؤٹ ہوئے تو کراچی کنگز کا اسکور 5 اوور کے اختتام پر 60 رنز تک پہنچ گیا تھا۔ اس موقع پر ایسا لگ رہا تھا کہ کراچی کئی اوور پہلے باآسانی یہ میچ جیت جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔
محمد موسیٰ جنہوں نے اپنے پہلے ہی اوور میں 20 رنز دیے تھے، انہوں نے شاندار کم بیک کرتے ہوئے اگلے 3 اوور میں صرف 4 رنز دے کر بابر اعظم کی قیمتی وکٹ بھی حاصل کرلی۔ بابر کے آؤٹ ہونے کے بعد کراچی کنگز کے کپتان عماد وسیم خود بیٹنگ کے لیے آئے، جبکہ دوسرے اینڈ پر ان کے ساتھ کیمرون ڈیلپورٹ موجود تھے۔ لیکن یہ دونوں ہی بہت زیادہ دب کر کھیلے۔
ڈیلپورٹ کی بیٹنگ میں اعتماد اور روانی کا فقدان نظر آیا۔ اپنی اننگ کی ابتدائی 34 گیندوں پر 60 رنز بنانے والی ٹیم نے اس شراکت میں 50 گیندوں پر صرف 30 رنز بنائے۔ سست روی کا شکار یہ شراکت داری کراچی کنگز کی شکست کا سبب بھی بن سکتی تھی، کیونکہ یہاں سے اسلام آباد یونائیٹڈ کے باؤلروں کو میچ میں واپس آنے کا موقع ملا اور جس وقت کراچی کنگز کو آخری 2 اوور میں جیت کے لیے 18 رنز درکار تھے تو یونائیٹڈ میچ جیتنے کے لیے فیورٹ بن گیا تھا۔
پھر یہ 19واں اوور کرنے خود کپتان شاداب خان آئے۔ گزشتہ 3 اووروں میں شاداب نے اچھی باؤلنگ کی تھی، اس لیے امید یہی تھی کہ وہ یہ اوور بھی اچھا نکال دیں گے مگر ایسا نہیں ہوسکا۔
شاداب خان نے پہلی 4 گیندوں پر صرف 5 رنز دیے لیکن پھر شاداب نے پانچویں گیند فل ٹاس کردی جس کا عمید آصف نے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے زوردار چھکا لگادیا۔ یوں اس 19ویں اوور میں 13 رنز بن گئے اور کراچی کنگز بہت سے نشیب و فراز سے گزر کر ایک مرتبہ پھر جیت کی جانب گامزن ہوگیا۔
آخری اوور میں جیت کے لیے صرف 5 رنز درکار تھے جو کراچی نے اوور کی پہلی 2 گیندوں پر ہی بنالیے۔
میچ پر نظر ڈالیں تو یہ بات اہم ہے کہ اگر اسلام آباد یونائیٹڈ 15 رنز اور بنا لیتا یا پھر شرجیل خان اتنی جارحانہ بیٹنگ نہیں کرتے، تو میچ کا نتیجہ مختلف بھی ہو سکتا تھا۔
ڈین جونز کی خوبی اور صلاحیت اس میچ سے ٹھیک ایک سال قبل یعنی 14 مارچ 2019ء کو بھی کراچی کنگز اور اسلام آباد یونائیٹڈ کے مابین میچ کھیلا گیا تھا۔ اس روز ڈین جونز اسلام آباد کے ہیڈ کوچ تھے اور پاکستان ٹیم کے ہیڈ کوچ مکی آرتھر کراچی کنگز کے کوچ تھے۔ اس میچ کے ٹھیک ایک سال بعد ہونے والے میچ میں آج ایک مرتبہ پھر اس ٹیم کو کامیابی ملی جس کے ہیڈ کوچ ڈین جونز تھے جبکہ پاکستان کے ہیڈ کوچ کی ٹیم کو ایک مرتبہ پھر شکست ہوئی۔
اسلام آباد یونائیٹڈ کو بھی پاکستان سپر لیگ کی 2 مرتبہ چیمپئن بنوانے میں ڈین جونز کا اہم کردار رہا ہے۔ ڈین جونز کی بطور کوچ مسلسل کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ بہترین حکمتِ عملی مرتب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اس تناظر میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے قومی ٹیم کی کوچنگ سے متعلق ڈین جونز کی خواہش کو 2 مرتبہ رد کرکے بہت بڑی غلطی کی ہے۔
اسلام آباد کے خراب نصیب اور خراب کارکردگی یہ ٹھیک ہے کہ اسلام آباد یونائیٹڈ کو آخری میچ میں اپنے چند نمایاں کھلاڑیوں کی خدمات دستیاب نہیں تھی لیکن ٹورنامنٹ کے ابتدائی حصے میں جب یہ کھلاڑی موجود تھے، تب بھی اسلام آباد کوئی خاطر خواہ کارکردگی پیش نہیں کرسکا اور اس ٹیم کو اپنے ابتدائی 9 میں سے صرف 3 میچوں میں کامیابی مل سکی۔
ایک ایسے ٹورنامنٹ میں جہاں ٹاس ہار اور جیت میں اہم کردار ادا کر رہا تھا، اسلام آباد یونائیٹڈ کے کپتان کی بدقسمتی یہ رہی کہ وہ 9 میچوں میں صرف 2 مرتبہ ہی ٹاس جیت سکے۔ بارش نے بھی اسلام آباد یونائیٹڈ کے لیے مشکلات پیدا کیں۔ ان کا ایک میچ بارش کی نظر ہوگیا جبکہ پشاور زلمی کیخلاف ایک اہم میچ کا فیصلہ میچ کے دوران ہوجانے والی بارش کے سبب زلمی کے حق میں چلے گیا۔
اسلام آباد کی مزید غلطیاں اسلام آباد یونائیٹڈ کی باؤلنگ بھی مسلسل ناکام رہی۔ اسلام آباد کی شکست کی ایک اور بڑی وجہ ان کی مسلسل کمزور فنشنگ بھی ہے۔ یہ ٹیم متعدد میچوں میں اپنی اننگ کے ابتدائی 15 اوور میں بہتر پوزیشن میں ہونے کے باوجود آخری 5 اوورز میں تیزی کے ساتھ رنز بنانے میں تسلسل کے ساتھ ناکام رہی اور یہ خامی ان کے ٹورنامنٹ سے جلد باہر ہونے کی بڑی وجہ ہے۔
شاداب خان کی باؤلنگ توجہ طلب ہے شاداب خان کی بیٹنگ فارم تو اس ٹورنامنٹ میں اچھی رہی لیکن ان کی باؤلنگ فارم اتار چڑھاؤ کا شکار رہی۔ شاداب خان کو کوشش اور محنت کر کے اپنی باؤلنگ فارم بھی جلد حاصل کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ ٹی20 ورلڈ کپ اب زیادہ دُور نہیں۔
قلندرز کا اعزاز یونائیٹڈ کو حاصل ہوگیا پاکستان سپر لیگ کی 5 سالہ تاریخ میں پہلا موقع ہے جب لاہور قلندز کے بجائے کوئی دوسری ٹیم پوائنٹس ٹیبل پر آخری پوزیشن حاصل کرے گی۔ لاہور قلندرز اس وقت تک تو سیمی فائنل میں پہنچنے کی دوڑ میں شامل ہیں اور ان کی قسمت کا فیصلہ آج ہوجائے گا۔ پھر اس سال پہلی مرتبہ ایسا ہورہا ہے کہ لیگ کی 2 کامیاب ترین ٹیموں یعنی اسلام آباد یونائیٹڈ اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے درمیان پوائنٹس ٹیبل پر آخری نمبر پر رہنے کے لیے مقابلہ جاری ہے۔