نقطہ نظر

سہولیات کے بغیر کس طرح خواتین نے صحرا میں انقلاب برپا کیا؟

جب ہم نے کام شروع کیا تب تصور بھی نہیں تھا کہ ایسے حیرت انگیز نتائج دیکھنے کو ملیں گے۔ ایسا لگا جیسے خواب حقیقت بن گئے۔

رواں برس صوبہ سندھ کے رتنور نامی گاؤں میں خواتین کے چہرے پہلی فصل تیار ہونے پر خوشی سے کھل اٹھے تھے۔

یہ کوئی عام فصل کی کٹائی کا موسم نہیں ہے اور پانی کی شدید قلت کے شکار اس علاقے میں پھلدار درختوں کی نشوونما کے لیے 5 برس کا وقت اور سخت مشقت لگی ہے۔ ویسے بھی ضلع عمر کوٹ کے صحرائی علاقوں میں کسی بھی فصل کی کٹائی ہمیشہ ایک خاص موقع ہی ہوتا ہے۔ اس ریگستانی علاقے میں ایک تو پانی کم ہے اوپر سے جو پانی دستیاب ہے وہ بھی کھارا ہے۔

سفر کا آغاز 2015ء میں ہوا جب گاؤں کی 10 عورتوں نے مقامی جنگلی بیری سے پیوند شدہ 50 بیری کے درختوں کو اگایا تھا۔ ان خواتین کو مقامی سول سوسائٹی کی تنظیم سامی فاؤنڈیشن کی جانب سے ایکشن ایڈ، پاکستان اور Ariz Zone Research Institute (اے زیڈ آر آئی) عمر کوٹ کے تعاون کے ساتھ گارڈن منیجمنٹ کی تربیت فراہم کی گئی تھی۔

ہر ایک دیہاتی خاتون کے ذمے 5 درخت ہیں، اور یہ خواتین ہر دوسرے دن پودوں کو پانی دینے، گھاس جڑ سے اکھاڑنے اور نامیاتی کھاد ڈالنے جیسے کاموں میں 2 گھنٹے صرف کرتی ہیں۔

اس پراجیکٹ میں شامل خواتین میں سے ایک ڈھیلی کہتی ہیں کہ ’جب کوئی ہمارے باغ کا ذکر کرتا ہے تب میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا۔ اس قدر کٹھن موسم میں رتوڑ کے دیہاتیوں نے صحرائی علاقے میں بیر کا باغ اگایا ہے‘۔

’پانی کی بوند بوند قیمتی ہے‘

ضلع عمرکوٹ اور تھرپارکر کے صحرائی علاقوں کو ہر کچھ عرصے بعد قحط سالی کا سامنا ہوتا ہے۔ یہاں باغ کا ہونا دیوانے کا خواب تصور کیا جاتا ہے۔ صحرا میں پانی کی ایک ایک بوند قیمتی ہے، یہ الفاظ سمیرو میگھواڑ کے تھے جو خواتین کے مذکورہ گروہ کے زبردست معاونت کاروں میں سے ایک رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ یہاں پانی کا حصول ایک انتہائی مشقت بھرا کام ہے، زیر زمین پانی کھارا ہے اس لیے ہم شہر سے آنے والے واٹر ٹینکرز سے 6 سے 8 ہزار روپے میں پانی خریدتے ہیں۔ بصورتِ دیگر لوگ گاؤں سے تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر دُور بنے آرمی واٹر کلیکشن پوائنٹس سے پانی لاتے ہیں۔

ابتدائی طور پر سمیرو میگھواڑ نے قریبی ہسپتال سے استعمال شدہ ڈرپیں خریدیں اور ہر ایک پودے کی آبیاری کے لیے ان ڈرپوں کی مدد سے جدید نظام آبپاشی کا جگاڑی طریقہ اپنایا۔ اس نے ایک برس کی ضرورت پوری کی جس کے بعد لوگوں نے اگلے 2 برس کے لیے مٹی کی آبیاری کے لیے 5، 5 لیٹروں کے کین خرید لیے۔

پودے کے بڑھنے کے ساتھ ان کی آبی طلب بھی بڑھتی گئی۔ لوگ اپنے ذاتی استعمال کے پانی کی مقدار سے زیادہ اس باغ میں ڈالنے لگے۔ صحرا میں عام طور پر گھر کے تمام ہی افراد گھر پر پانی لانے کے لیے 2 سے زائد گھنٹے لگاتے ہیں۔ چونکہ اب گھروں کے مقابلے میں پانی کی ایک بڑی مقدار باغات میں استعمال کی جارہی تھی اس لیے حصولِ آب کا عمل مزید سخت بن گیا تھا۔

جب سمیرو میگھواڑ مجھے باغ کے لیے حصولِ آب کے بارے میں بتا رہے تھے تب ڈھیلی زمین کی نمی برقرار رکھنے کے لیے باغ میں سوکھے پتے اور گھاس جمع کرکے انہیں پودوں کے نیچے رکھنے میں مصروف نظر آئیں۔ وہ کہتی ہیں کہ، ’ہم نے ان پودوں کو اپنے بچوں کی طرح بڑا کیا ہے۔ ہمارے ذہنوں میں ہر وقت اپنے باغ کی آبیاری، اس کے لیے نامیاتی کھادوں کے بندوبست، باغ کے باقی ماندہ حصے میں سبزیاں اگانے جیسی بہت سی باتیں سوار رہتی ہیں۔ رواں برس ہم نے اس باغ میں اگنے والے بیر اپنی بیاہتا بیٹیوں کو بھی تحفتاً بھیجے ہیں‘۔ گروہ کی دیگر خواتین نے بھی محنت کے اس پھل کو خوب مل بانٹ کھایا ہے۔

پہلی بڑی فصل

مگھیرو کہتے ہیں کہ اس گاؤں نے اپنے بیر 15 ہزار روپے میں بیچے۔ فصل کا 40 فیصد حصہ دیہاتیوں بالخصوص بچوں اور خواتین میں بانٹا گیا اور 80 کلو کے قریب بیر صحرائی علاقوں کے دیگر علاقوں میں بیاہتا بیٹیوں کو موسم کے تحفے کے طور پر بھیجے گئے۔

عمر کوٹ میں واقع سندھ ایگریکلچر یونیورسٹی کے کیمپس سے بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر وابستہ محمد اسماعیل بھٹی کہتے ہیں کہ بیر کھجور کی ہی طرح میٹھے ہوتے ہیں اور ان میں فائبر کی بڑی مقدار پائی جاتی ہے۔ ان بیروں میں ضروری وٹامن، اینٹی آکسیڈنٹ اور بالخصوص وٹامن سی بھرپور ہوتے ہیں۔ یہ جِلد کی توانائی بحال، جسم کو نقصان پہنچانے والے آزاد اصلیوں (Free Radicals) کا مقابلہ کرنے اور بیماریوں کو دُور رکھتے ہوئے قوتِ مدافعت کو تقویت پہنچانے میں مفید ثابت ہوتے ہیں۔

محمد اسماعیل بھٹی کا کہنا ہے کہ اس قسم کے باغوں کو وسیع بنیادوں پر اُگا کر عمرکوٹ اور تھرپارکر کے قحط زدہ علاقوں میں غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ حاملہ اور دودھ پلانے والی ماؤں کی غذائی قلت کو بھی کم کیا جاسکتا ہے۔

پراجیکٹ میں شامل سندری کہتی ہیں کہ، ’2015ء میں جب ہم نے اس باغ کو اگانا شروع کیا تب تصور بھی نہیں تھا کہ ایسے حیرت انگیز نتائج دیکھنے کو ملیں گے۔ ہمیں ایسا لگا جیسے خواب نے حقیقت کا روپ لے لیا ہو۔ اس کام میں شامل ہر ایک شخص بالخصوص خواتین کا گروہ اپنی محنت کا پھل دیکھ کر بہت ہی پُرجوش اور خوش ہیں‘۔

مستقبل کی سوچ

پانی تک رسائی بالخصوص پانی کو دوسری جگہ سے یہاں لانے پر آنے والا خرچہ گاؤں والوں کے لیے ایک اہم مسئلہ ہے۔ گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ ان کے ہاں زیرِ زمین پانی اتنا زیادہ کھارا نہیں ہے اس لیے اس پانی کو استعمال کرتے ہوئے باغ کے آس پاس سبزیاں بھی اگائی جاسکتی ہیں۔ مگر درختوں کی تعداد اور سبزیوں و فصلوں کی پیداوار بڑھانے کے لیے انہیں شمسی توانائی سے چلنے والا پریشر پمپ درکار ہے جس پر ابتدائی طور پر بھاری لاگت کی ضرورت پڑے گی۔

سامی فاؤنڈیشن کے Sindh Drought Resilience Programme کے پراجیکٹ منیجر حیدر علی کا کہنا ہے کہ اگر مقامی افراد باغ کے لیے مارچ سے جون یعنی مون سون کی آمد تک پانی کا بندوبست کرلیں تو اگلے 4 ماہ (جولائی تا اکتوبر) تک کا انتظام ہوجائے گا۔ موسمِ سرما میں نمی زیادہ بھاپ بن کر نہیں اڑتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ بیری کے درخت شہد کی مکھیوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں اور یوں زیادہ درخت اگانے سے گاؤں والوں کی آمدن کے مزید مواقع بھی حاصل ہوسکتے ہیں۔

خواتین کو اس وقت ایک غیر متوقع چیلنج کا سامنا کرنا پڑا جب ٹڈی دل نے گزشتہ برس اگست اور نومبر میں ان کی فصل پر حملہ کردیا تھا۔ لیکن خواتین نے یہ طے کرلیا تھا کہ اپنی محنت کو ضائع نہیں ہونے دیں گی۔ ڈھیلی کہتی ہیں کہ، ’ہم نے ٹن کے ڈبے بجا کر اور ٹج الاؤ جلا کر دھوئیں سے ٹڈیوں کو ڈرا کر بھگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مگر ٹڈیوں کا ایک دل بھگایا ہی جاتا تھا کہ دوسر آجاتا۔ ہم نے بھی ہار نہیں مانی اور دن رات سخت محنت کرتے رہے اور یوں ہم نے اپنی کوششوں سے ٹڈیوں کو ایک پتہ بھی کھانے نہیں دیا‘۔


یہ مضمون ابتدائی طور پر دی تھرڈ پول ڈاٹ نیٹ پر شائع ہوا اور بہ اجازت یہاں شائع کیا گیا ہے۔


منوج گینانی فوٹوگرافر اور سنیمیٹوگرافر ہیں۔

منوج گینانی

منوج گینانی فوٹوگرافر اور سنیمیٹوگرافر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔