نقطہ نظر

ملتان والے ہارنے اور پشاور والے جیتنے کے لیے تیار نظر نہیں آئے

سیٹ ہونے کے بعد شعیب ملک جس انداز آؤٹ ہوئے ہیں اس کے بعد ملک کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ کرکٹ کو خیر باد کہہ دیں۔

پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) اپنے اختتامی مراحل کی جانب تیزی سے گامزن ہے۔ اس ٹورنامنٹ کے 27 میچ مکمل ہونے کے بعد ملتان سلطانز تو شاہانہ انداز میں ٹورنامنٹ کے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکی مگر دیگر 5 ٹیموں کے درمیان سیمی فائنل تک رسائی کے لیے رسہ کشی جاری ہے۔

پی ایس ایل کا 27واں میچ کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں ملتان سلطانز اور پشاور زلمی کے مابین کھیلا گیا۔ اس میچ سے ایک روز قبل عالمی وبا کرونا وائرس کی روک تھام کے لیے احتیاطی تدبیر کے طور پر اس بات کا فیصلہ ہوچکا تھا کہ یہ میچ تماشائیوں سے خالی میدان میں کھیلا جائے گا۔

میچ والے دن میدان سے زیادہ میدان کے باہر کی صورتحال شائقین اور منتظمین کے لیے ہنگامہ خیز ثابت ہو رہی تھی۔ یہ صورتحال اس وقت مزید گمبھیر ہوگئی جب عالمی سطح پر اس بیماری کے باعث تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال اور پروازوں کی آمد و رفت کے شدید متاثر ہوتے نظام الاوقات کے تناظر میں بہت سے کھلاڑیوں نے ٹورنامنٹ سے دستبردار ہوکر اپنے اپنے ملک روانہ ہونے کا فیصلہ کیا۔

دوسری طرف پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے بھی کورونا وائرس کے حوالے سے احتیاطی تدابیر کرتے ہوئے پاکستان سپر لیگ کے شیڈول میں تبدیلی کی اور آف مرحلے کو سیمی فائنل میں تبدیل کردیا۔ یہ دونوں سیمی فائنل اب 17 مارچ کو لاہور میں کھیلے جائیں گے جبکہ فائنل 18 مارچ کو کھیلا جائے گا۔

اس عالمی وبا کے خطرے کے پیش نظر پی سی بی نے غیر ملکی اور مقامی کھلاڑیوں کو یہ آفر کی تھی کہ اگر وہ چاہیں تو اس ایونٹ سے دستبردار ہوسکتے ہیں اور اس تجویز پر عمل کرتے ہوئے اب تک 14 غیر ملکی کھلاڑی نے واپسی کا فیصلہ کیا، جن میں کچھ اپنے اپنے ملکوں کو روانہ ہوچکے اور کچھ جلد ہوجائیں گے۔

اس پوری صورتحال میں سب سے زیادہ نقصان پشاور زلمی اور اسلام آباد یونائیٹڈ کو ہوا۔ جمعے کو اپنا اہم ترین میچ کھیلنے جب پشاور کی ٹیم میدان میں اتری تو اس کو کسی ایک بھی غیر ملکی کھلاڑی کا ساتھ میسر نہیں تھا۔ اگرچہ خیال یہی تھا کہ چونکہ اس ٹیم کے پاس شعب ملک، وہاب ریاض، کامران اکمل اور حسن علی جیسے تجربے کار کھلاڑی موجود ہیں اس لیے یہ ٹیم اپنا آخری میچ جیت کر اگلے مرحلے کے لیے جگہ پکی کرلے گی، مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا اور پشاور کو محض 3 رنز سے شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔

اس میچ میں کیا کچھ اہم اور دلچسپ ہوا؟ آئیے جائزہ لیتے ہیں۔

ٹاس

اس ٹورنامنٹ میں ٹاس کا کردار بہت اہم رہا ہے۔ زیادہ تر کپتان ٹاس جیت کر مخالف ٹیم کو بیٹنگ کی دعوت دے رہے ہیں اور اس میچ میں بھی یہی ہوا۔ ٹورنامنٹ کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے پشاور زلمی کے کپتان نے ٹاس جیت کر ملتان سلطانز کو بیٹنگ کی دعوت دی۔

ملتان سلطانز کی ایک نئی اوپننگ جوڑی

اس ٹورنامنٹ میں ملتان سلطانز نے کئی مرتبہ مختلف اوپننگ جوڑی کو آزمایا ہے، اور اس میچ میں بھی ایسا ہی ہوا۔ کراچی میں کھیلے جانے والے اس میچ میں سلطانز نے پہلی مرتبہ انڈر 19 ورلڈ کپ کے کپتان روحیل نظیر کو موقع دیا اور انہیں اننگ کا آغاز کرنے کی ذمہ داری دی، جبکہ ان کے ساتھ اِن فارم زیشان اشرف آئے۔ ملتان سلطانز کی جانب سے اس سیزن میں آزمائی جانے والی یہ پانچویں اوپنگ جوڑی تھی۔

ذیشان اشرف کی شاندار بیٹنگ

اس میچ میں ملتان سلطانز کی جانب سے سب سے شاندار بیٹنگ ذیشان اشرف نے کی۔ ویسے وہ اس اننگ میں کافی خوش قسمت بھی رہے۔ خاص طور پر اس وقت جب چوتھے ہی اوور میں ایک تیز رن لیتے ہوئے وہ تھرڈ امپائر احسن رضا کی مہربانی کے باعث رن آؤٹ نہیں دیے گئے اور یوں اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ذیشان نے پی ایس ایل میں اپنی دوسری نصف سنچری بنالی۔ زیشان اشرف نے 39 گیندوں پر 52 رنز بنائے اور کسی حد تک قومی سلیکٹرز کو متوجہ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بتایا کہ ایک نظر اِدھر بھی۔

راحت علی کی شاندار باؤلنگ

ویسے تو زلمی کے پاس وہاب ریاض اور حسن علی کی شکل میں مختصر کرکٹ کے بہترین باؤلرز موجود ہیں لیکن اس میچ میں زلمی کے ہیرو راحت علی ثابت ہوئے۔ یہ راحت علی کی باؤلنگ کا ہی کمال ہے کہ وکٹیں ہاتھ میں ہونے کے باوجود ملتان کی ٹیم برق رفتاری سے آگے نہیں بڑھ سکی۔

یہ اننگ کا 12واں اوور تھا جب راحت علی نے ایک ہی اوور میں پہلے ذیشان اشرف کا شکار کیا اور پھر معین علی کو پویلین کی راہ دکھائی۔ اس اوور میں راحت نے صرف 2 رنز دے کر 2 وکٹیں حاصل کرکے میچ کا سارا نقشہ ہی بدل دیا۔

ملتان کی اننگ کا خراب اختتام

ملتان سلطانز نے ابتدائی 11 اوورز میں صرف ایک وکٹ کے نقصان پر 90 رنز بنائے تھے۔ اس موقع پر تو ایسا لگ رہا تھا کہ 170 بننا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں، مگر راحت علی کے اس 12ویں اوور کے بعد سب بدلنا شروع ہوا اور اگلے 9 اوورز میں ملطان والے 5 وکٹوں کے نقصان پر صرف 64 زنز ہی بناسکے۔

ان 64 رنز میں سے 19 رنز آخری اوور میں بنے جب خوش دل شاہ نے حسن علی کو 2 بڑے چھکے لگائے۔ یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ اسی اوور کی تیسری گیند پر شعیب ملک نے خوش دل شاہ کا انتہائی آسان کیچ چھوڑا تھا، اگر وہ کیچ پکڑ لیا جاتا تو میچ کا نتیجہ پشاور کے حق میں ہوتا۔

پشاور زلمی نے 155رنز کا تعاقب شروع کیا تو ان کی اننگ جن مسائل کا شکار رہی، ان کا جائزہ پیش خدمت ہے۔

کامران اکمل کی وکٹ

ہدف چاہے کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، اگر ٹیم کو آغاز اچھا مل جائے تو اس تک پہنچنا آسان ہوجاتا ہے۔ لیکن دوسری طرف اگر آغاز اچھا نہ ملے تو پھر کم ترین ہدف بھی مشکل ترین بن جاتا ہے۔ اس میچ میں پشاور کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا۔ اننگ کے دوسرے ہی اوور میں محمد عرفان نے کامران اکمل کی وکٹ حاصل کرکے زلمی کے لیے مشکلات کھڑی کردیں۔ پاکستان سپر لیگ کا پانچواں ایڈیشن کامران اکمل کے لیے زیادہ اچھا نہیں رہا ہے۔ انہوں نے اس سیزن میں ایک سنچری تو ضرور بنائی ہے لیکن زیادہ تر اننگز میں وہ خاطر خواہ کارکردگی پیش نہیں کرسکے۔

بیٹنگ آرڈر میں تبدیلی

اتنی جلدی پہلی وکٹ گرجانے کے بعد وہاب ریاض کا خود بیٹنگ کے لیے آجانا بالکل بھی سمجھ نہیں آیا، اور اگر سچ پوچھیے تو یہ ایک معمہ ہے۔ پشاور کے لیے تیسرے نمبر پر نوجوان حیدر علی نے بہت مناسب کھیل پیش کیا ہے لیکن یہ لگاتار تیسرا میچ ہے جب ان کی پوزیشن کو تبدیل کیا گیا ہے۔

اسلام آباد کے خلاف کھیلے گئے میچ میں حیدر کو صرف اس لیے تیسرے سے چوتھے نمبر پر منتقل کیا گیا کیونکہ ٹام بینٹن اور امام الحق دونوں کو ٹیم میں جگہ مل گئی تھی۔ چلیے یہاں یہ بات سمجھ پھر آجاتی ہے۔ لیکن پھر لاہور قلندرز کے خلاف اگلے ہی میچ میں حیدر کو چوتھے سے پانچویں نمبر پر بھیجا گیا۔ یہ بار بار جگہ کی منتقلی کسی بھی بیٹمسمین کو پریشان کرسکتی ہے، مگر اچھی بات یہ ہوئی کہ حیدر علی نے مشکل وقت پر آکر اس میچ میں شاندار نصف سنچری اسکور کی تھی۔

اور اب ملتان کے خلاف تو حد ہی ہوگئی، تیسرے نمبر سے بیٹنگ کا آغاز کرنے والے حیدر علی کو چھٹے نمبر پر بھیجا گیا۔ ظاہر ہے ان غلط فیصلوں کا نتیجہ بھی غلط ہی نکلنا تھا، اور وہ نکلا بھی کہ پشاور کو اہم ترین میچ میں شکست ہوگئی۔ ویسے اچھا ہے پشاور کے راؤنڈ میچ ختم ہوگئے، اگر مزید میچ بھی ہوتے تو کیا معلوم حیدر 10ویں یا 11ویں نمبر پر بیٹنگ کے لیے آرہے ہوتے۔

پھر اننگ کے آخری اووروں میں جب تیز بیٹنگ کرنے کی ضرورت تھی تو حسن علی کے بجائے اس لیگ میں اپنا پہلا میچ کھیلنے والے عادل عمین اور حماد اعظم کو بیٹنگ کے لیے بھیجنا بھی درست فیصلہ نہیں تھا۔

شعیب ملک اور امام الحق کی شراکت

شعیب ملک اور امام الحق کے درمیان 46 گیندوں پر بننے والی 70 رنز کی شراکت نے پشاور زلمی کو جیت کے بہت قریب پہنچا دیا تھا۔ امام الحق نے 41 گیندوں پر 56 رنز تو بنائے، مگر میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ اس اننگ میں بڑا کردار ملتان کے باؤلروں کا تھا جو امام کو آسان مواقع دیتے رہے۔

اس مختصر فارمیٹ میں خود کو ثابت کرنے کے لیے ابھی امام الحق کو مزید محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ شعیب ملک نے بھی 30 رنز ضرور بنائے لیکن ان کی اننگ میں روانی نہیں تھی اور جس انداز سے میچ کے ایک اہم موڑ پر وہ آؤٹ ہوئے ہیں اس کے بعد ملک کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ کرکٹ کو خیر باد کہہ دیں۔

میچ کا ٹرننگ پوائنٹ

پشاور زلمی کو آخری 4 اوورز میں جیت کے لیے صرف 34 رنز درکار تھے اور اس کی 8 وکٹیں باقی تھیں جبکہ وکٹ پر شعیب ملک اور امام الحق موجود تھے جو مکمل طور پر سیٹ ہوچکے تھے۔ اس پوری صورتحال میں بظاہر یہ سب بہت آسان لگ رہا تھا لیکن ملتان سلطانز کے باؤلر ہمت ہارنے کو تیار نہیں تھے۔ اگر یہاں یہ بھی کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ ملتان ہارنے کے لیے اور پشاور جیتنے کے لیے تیار نظر نہیں آئے۔

اننگ کے 17ویں اوور میں سہیل تنویر نے اپنے تجربے کو استعمال کرتے ہوئے صرف 5 رنز دے کر امام الحق کو پویلین بھیجا۔ پشاور کے پاس اب بھی اچھا موقع تھا کیونکہ 18واں اوور کرنے کے لیے نئے علی شفیق آئے تھے، مگر انہوں نے وہ کام کردیا جو شاید کوئی تجربے کار باؤلر بھی نہیں کرپاتا۔ اننگ کے اس اہم ترین موقع پر 2 رنز دے کر حیدر علی اور شعیب ملک کو آؤٹ کرکے ملتان کی پوزیشن کو بہت زیادہ مضبوط کردیا۔

2 اوور پہلے زلمی کو 4 اوور میں صرف 34 رنز درکار تھے، مگر اب سب بدل گیا تھا اور اگلے 2 اوور میں جیت کے لیے 25 رنز درکار تھے۔ لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ کرکٹ میں کبھی بھی کچھ بھی ہوسکتا ہے، تو آخری اوور میں کچھ ایسا ہی ہوا۔

آخری اوور میں علی شفیق کو 15 رنز کا دفاع کرنا تھا اور ابتدائی 3 گیندوں میں جب انہوں نے محض 3 رن دیے تو نتیجہ واضح نظر آنے لگا۔ مگر پھر علی نے ہوش سے جان چھڑائی اور جوش سے کام لیا اور اگلی گیند نو بال کروادی جس پر چوکا بھی لگ گیا۔ یعنی اب اگلی تین گیندوں پر صرف 7 رنز چاہیے تھے اور ساتھ فری ہٹ بھی بطور انعام ملی تھی۔

اس موقع پر تو شاید ہی کسی کو ملتان کی جیت کی امید ہو، مگر جیسے پہلے کہا کہ پشاور جیتنے کے لیے تیار ہی نہیں تھی کیونکہ اگلی 3 گیندوں پر صرف 3 رنز ہی بن سکے اور یوں ملتان کو 3 رنز سے کامیابی مل گئی۔

مین آف دی میچ

ذیشان اشرف کو ان کی بیٹنگ کی وجہ سے مین آف دی میچ قرار دیا گیا۔ اس سے کوئی انکار نہیں کہ انہوں نے بہت اچھی بیٹنگ کی تھی، مگر مجھے ذاتی طور پر یہ فیصلہ غلط لگا کیونکہ اگر سہیل تنویر اور علی شفیق آخری 4 اوورز اتنے اچھے نہیں کرتے تو ذیشان کی یہ اننگ ضائع ہوجاتی۔ سہیل تنویر نے اپنے 4 اوورز میں 26 رنز دیکر 3 وکٹیں حاصل کی تھیں، اس لیے وہ اس اعزاز کے زیادہ حقدار تھے۔


پاکستان سپر لیگ کے سیمی فائنل کے لیے ملتان سلطانز نے تو اپنی جگہ پکی کرلی ہے۔ آج کراچی اور اسلام آباد یونائیٹڈ کے درمیان ایک اہم میچ کھیلا جانا ہے۔ اگر اسلام آباد والے سیمی فائنل کھیلنا چاہتے ہیں تو پھر انہیں اچھے رن ریٹ کے ساتھ یہ میچ لازمی جیتنا ہوگا، اور اس بڑے دھچکے کے باوجود جیتنا ہوگا کہ اب انہیں اپنے اہم ترین غیر ملکی کھلاڑیوں لیوک رونکی، ڈیل اسٹین اور کولن منرو کی خدمات میسر نہیں ہوں گی۔

کچھ نقصان کراچی کنگز کا بھی ہوا ہے کیونکہ ایلکس ہیلز بھی آج کے میچ کے لیے دستیاب نہیں ہوں گے لیکن ان کے دیگر اہم کھلاڑی دستیاب ہوں گے۔ بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ کراچی کنگز اس میچ میں کامیابی حاصل کرلے گی، مگر کوئی بھی بات حتمی طور پر نہیں کی جاسکتی کیونکہ جیت کا دارومدار اس بات پر ہے کہ میدان میں کونسی ٹیم کیسا کھیل پیش کرتی ہے۔

خرم ضیاء خان

خرم ضیاء خان مطالعے کا شوق رکھنے کے ساتھ ساتھ کھیلوں کے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: KhurramZiaKhan@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔