آسیب کہانیاں - آٹھویں قسط
’وہاں ایک آدمی کھڑا ہے جس کا منہ نہیں ہے‘
اس سیریز کی بقیہ اقساط۔ پہلی، دوسری، تیسری، چوتھی، پانچویں، چھٹی اور ساتویں قسط
تِھنک ہاؤس کی بوڑھی روح
کراچی کی سندھی مسلم سوسائٹی میں طارق روڈ اللہ والی چورنگی کے پاس ہمارے دوست الطاف شکور کے ایک واقف کار کا پرانا مکان طویل عرصے سے بند پڑا تھا۔
اس گھر کے مکین کئی سال ہوئے ملک سے باہر جاچکے تھے۔ الطاف بھائی اور ان کے چند ادبی ذوق رکھنے والے دوستوں نے سوچا کہ کیوں نہ اس خالی گھر کے مالک سے اجازت لے کر یہاں کچھ علمی و ادبی سرگرمیاں شروع کی جائیں۔ بات کی گئی تو فوراً ہی اجازت ملی اور گھر کی چابیاں بھی مل گئیں۔
یہ ایک قدیم طرز کا خوبصورت مگر بوسیدہ 2 منزلہ مکان تھا۔ اس کی عمارت ایک وسیع احاطے کے بیچ میں تھی جس کے اطراف میں املی، نیم اور پیپل کے پرانے درخت کھڑے تھے۔ احاطے میں خودرو جھاڑ جھنکار نہ جانے کب سے اُگ اُگ کر سوکھ رہا تھا۔ برسوں سے بے آباد رہنے کی وجہ سے گھر اور باغ کی حالت خاصی خراب تھی۔ مکان کی چابی ملتے ہی چند دوست ایک دن یہاں پہنچے اور صفائی ستھرائی میں لگ گئے۔
کچھ ہی دن میں سارے کمروں اور باغیچے کی حالت خاصی بہتر ہوگئی۔ بجلی پانی بحال ہوئے تو لوگوں نے آنا جانا شروع کردیا اور مکان میں کچھ رونق آگئی۔ نچلی منزل کو تو بند ہی رہنے دیا گیا۔ ادبی نشستوں، لائبریری اور تحقیقی کاموں کے لیے اوپر والی منزل کو ٹھکانہ بنایا گیا۔ مکان کا نام ’تِھنک ہاؤس‘ رکھا گیا اور یہاں ہفتہ وار ادبی نشستیں، اقبال فہمی پر لیکچرز کے ساتھ شعر و ادب کی محفلیں شروع ہوگئیں۔
لائبریری میں صحافی دوست اور تحقیقی کام کرنے والے ساتھی صبح شام اپنا وقت گزارنے لگے۔ انہی میں ہمارے صحافی بھائی عبدالخالق بٹ بھی شامل تھے۔ وہ بھی اپنے میگزین کے لیے یہیں بیٹھ کر رات گئے تک تحریری کام میں مصروف رہنے لگے۔ یہ سارا ماحول بڑا خوش کن اور بہت پُرسکون تھا۔ ساری مصروفیات خوشی خوشی جاری تھیں کہ ایک رات یہاں بٹ صاحب کے ساتھ اچانک ایک خاصا ڈراؤنا واقعہ پیش آگیا۔ بٹ صاحب ہی سے سنیں:
’ایک دن شام کو میں تِھنک ہاؤس پہنچا تو وہاں اس وقت کوئی بھی موجود نہیں تھا۔ میں چابی سے گھر کھول کر اندر داخل ہوا اور اوپر آکر اپنی کرسی میز سنبھال لی۔ مجھے اپنے ایک تحقیقی فیچر کی فائنل ایڈیٹنگ کرنا تھی۔ میں نے کاغذات نکالے اور لکھنا شروع کردیا۔ کام میں انہماک اس قدر زیادہ تھا کہ وقت گزرنے کا بالکل پتا نہ چلا۔ اچانک گھڑی پر نظر پڑی تو پتا چلا کہ رات کے 12 بج رہے ہیں۔ میں نے قلم ایک طرف رکھا اور اٹھ کر غسل خانے کی طرف چلا گیا۔ غسل خانہ عمارت کے مرکزی ہال کے ایک گوشے میں تھا۔
'سب کمروں کے دروازے اسی ہال میں کھلتے تھے۔ منہ ہاتھ دھو کر واپس باہر نکلا اور سر میں کنگھی گھماتا ہوا اپنے کمرے کی طرف رخ کیا ہی تھا کہ اچانک مجھے یوں محسوس ہوا جیسے اس وقت اس ہال میں میرے علاوہ کوئی اور بھی ہے۔ لیکن یہ کیسے ممکن تھا؟ کیونکہ میں نے تو مکان کا مرکزی دروازہ اندر سے بند کردیا تھا۔ میں نے اِدھر اُدھر دیکھا اور جب بائیں ہاتھ والے کمرے کے دروازے پر نظر پڑی تو وہاں مجھے جو منظر آیا وہ میرے رونگٹے کھڑے کرنے کے لیے کافی تھا۔
'کمرے کا دروازہ چوپٹ کھلا تھا اور اس کے بیچ میں ایک بوڑھی سی عورت سر جھکائے کھڑی فرش کو گھور رہی تھی۔ یا الٰہی، یہ عورت یہاں کہاں سے آگئی؟ یہ تو ممکن ہی نہیں تھا کہ اندر کی طرف سے مقفل اس مکان میں کوئی داخل ہوسکے۔ لیکن یہ بوڑھی عورت؟یااللہ
'ڈر کے مارے میرا بُرا حال ہوگیا۔ اس وقت میرا وہاں رُکنا تو دُور کی بات، اس عورت کے چہرے کی طرف دیکھنے کا خیال ہی میری چیخیں نکالنے کے لیے کافی تھا۔ میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور ایک لمحہ ضائع کیے بغیر باہر جانے والی سیڑھیوں پر چھلانگ لگادی اور لڑھکتا پڑھکتا نیچے کی طرف بھاگا۔سیکنڈوں کے اندر ہی میں دروازہ کھول کر گھر سے باہر نکل آیا اور دروازہ بند کیے بغیر سر پر پاؤں رکھ کر بھاگتا ہوا چشم زدن میں گلی کے آخری سرے پر پہنچ گیا۔
'چند منٹوں میں ہی میں اللہ والی چورنگی پر کھڑا تھا۔ یہاں تو اس وقت بھی ٹریفک کا سمندر رواں تھا، لیکن اس قدر رش اور رونق میں پہنچ کر بھی میرا خوف ختم ہو کے نہیں دے رہا تھا۔ میرا سینہ دھونکنی کی طرح چل رہا تھا اور منہ کھلا ہوا تھا۔ اگر اس وقت کوئی غور سے مجھے دیکھتا تو یقیناً وہ بھی ڈر جاتا۔ لیکن لوگ تو اپنی اپنی دنیا میں مگن گزرے چلے جا رہے تھے۔ خیر میں نے خود کو سنبھالا اور کسی نہ کسی طرح گھر پہنچ گیا۔
'اگلے کئی دن تو میں نے تِھنک ہاؤس کی طرف رخ ہی نہیں کیا، لیکن آخر کب تک۔ بالآخر ایک دن دوپہر کے وقت دوبارہ وہاں پہنچا۔ دوستوں نے خوب آڑے ہاتھوں لیا اور سرزنش کی کہ میں اس رات آخر کیوں ایسی لاپرواہی سے گھر کو تالا لگائے بغیر چلا گیا تھا۔ جب میں نے دوستوں کو اس پُراسرار بوڑھی عورت کے بارے میں بتایا تو سب چونکے اور عجیب نظروں سے میری طرف دیکھنے لگے۔ مجھے لگا کہ کسی کو بھی میری بات پر یقین نہیں آرہا۔ خیر میں نے بھی زیادہ بحث نہ کی اور اپنے کام میں لگ گیا۔
'اگلے کئی روز تک میں آتا رہا لیکن دن میں ہی آتا اور دوستوں کی موجودگی میں ہی اٹھ کر روانہ ہوجاتا۔ ایک دن ساتھیوں نے ایک عجیب بات بتائی۔ کہنے لگے کہ دوسری منزل پر کام کرتے ہوئے ان میں سے اکثر کو کھڑکی کے باہر درختوں کے اندر سے ’بٹ صاحب، بٹ صاحب‘ کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے کوئی شخص درختوں کی شاخوں میں چھپا بیٹھا ہے اور بٹ صاحب کی صدائیں لگا رہا ہے۔ ہم لوگوں نے کئی مرتبہ اٹھ کر کھڑکی سے باہر جھانکا، لیکن نیچے اوپر کوئی ایسا انسان نظر نہیں آیا کہ جو یہ آوازیں دے رہا ہو۔ بس ’بٹ صاحب ہیں؟ بٹ صاحب ہیں؟۔۔۔‘ کی سرسراتی ہوئی ایک دو صدائیں آتی ہیں اور پھر خاموشی چھا جاتی ہے۔ دوستوں نے بالآخر تنگ آکر ان صداؤں پر دھیان دینا چھوڑ دیا۔
'میں نے جو یہ باتیں سنیں تو دوبارہ خوفزدہ ہوگیا۔ بالآخر گھبرا کر تِھنک ہاؤس جانا ہی چھوڑ دیا۔ کچھ ہی دن بعد باقی دوست بھی ایک ایک کرکے اس پُراسرار آسیبی مکان سے کھسکنے لگے اور آخر کار وہ مکان ایک بار پھر ویرانی کا شکار ہوگیا۔ وہ مکان آج بھی سندھی مسلم سوسائٹی کی اس گلی میں موجود ہے اور ہوسکتا ہے کہ اس کے قدیم درخت سائیں سائیں کرتے ہوئے آج بھی ’بٹ صاحب ہیں؟۔۔۔ بٹ صاحب ہیں؟۔۔۔‘ کی صدائیں لگاتے رہتے ہوں، لیکن میں دوبارہ وہاں کبھی نہیں گیا۔
پرانے سکّے، سفید چہرہ
میری پیدائش سندھ کے معروف شہر خیرپور میرس کی ہے۔ خیرپور میں جس سڑک پر ہمارا گھر تھا، اس پر کچھ سرکاری افسروں کے بنگلے بھی ہوا کرتے تھے۔ ہمارے والد عربی کے استاد تھے اور شہر کی مختلف مساجد میں نمازِ جمعہ کا خطبہ بھی دیا کرتے تھے، اس لیے ان کا حلقہءِ اثر ہر طرح کے لوگوں میں تھا۔
ہمارے گھر کے قریب محکمہ انہار کے افسر صالح میمن صاحب کا گھر تھا۔ صالح صاحب کی ابّا سے اچھی دوستی تھی اور ہماری پوری فیملی کا ان کے گھر آنا جانا تھا۔ صالح صاحب کی اہلیہ ہم بچوں سے بڑی محبت سے پیش آتی تھیں۔ ان کے اپنے بچے انہیں ‘آنی’ کہتے تھے اور ہم بھی انہیں پیار سے اَنی ہی کہتے تھے۔
ہم سارے بہن بھائی تقریباً روز ہی اَنی کے گھر ان کے بچوں کے ساتھ کھیلنے جاتے تھے۔ ان اپنا بنگلہ تو خاصا وسیع تھا ہی، ساتھ ہی برابر والا ویران بنگلہ بھی انہی کو ملا ہوا تھا۔ یہ بنگلہ اللہ جانے کیوں سالوں سے ویران پڑا تھا۔ اس کا مین گیٹ ہم نے ہمیشہ بند ہی دیکھا۔ ویران بنگلے کے اندر جانے کا راستہ صرف آنی کے گھر سے جاتا تھا۔ راستہ کیا تھا، بس لال اینٹوں کی بوسیدہ دیوار میں سے کچھ اینٹیں ہٹا کر ایک موکھلا نما دروازہ بنا دیا گیا تھا۔ اس موکھلے کے علاوہ اس ویران بنگلے کے اندر جانے کا کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ بنگلے کی چار دیواری بھی خاصی اونچی تھی اس لیے کسی کا اس گھر کے اندر آنا آسان نہیں تھا۔
ہم عام طور پر کھیلتے کھیلتے اَنی کے گھر سے نکل کر دیواری راستے سے اس ویران بنگلے میں بھی چلے جاتے تھے۔ خصوصاً چھپن چھپائی اور ایمپریس کے کھیل کا تو ہمیں مزا ہی ویران بنگلے میں آتا تھا۔
ویران بنگلے میں ہمارے لیے 2 مزے تھے۔ ایک تو وہاں کھیل کود میں کوئی روک ٹوک نہیں ہوتی تھی، جتنا چاہے دوڑو بھاگو، جتنا چاہو شور مچاؤ، کوئی منع نہیں کرتا تھا۔ لیکن اس کے علاوہ ایک اور بڑی عجیب اور پُراسرار کشش بھی تھی۔ وہ یہ کہ اس بنگلے کے ویران باغ کی مٹی میں ہمیں ہر دفعہ جگہ جگہ سکے بھی پڑے ملتے تھے۔ ایک پیسے، 5 پیسے، چونی اور اٹھنی کے نئے پرانے سکے۔ مٹی میں جا بجا دھنسے ہوئے ان سکوں پر ہرا ہرا رنگ چڑھا ہوا ہوتا تھا۔ یوں لگتا جیسے وہ کئی سال سے یہاں پڑے ہوں۔ ہم ان سکوں کو جمی ہوئی سخت مٹی میں سے نوچ نوچ کر نکالتے اور گھر لے جاکر انہیں ریت اور صابن سے دھونے کے بعد لیموں سے رگڑ رگڑ کر کم از کم اتنا چمکا لیتے کہ دکاندار وہ سکے لے کر ہمیں ٹافیاں بسکٹ دینے پر راضی ہوجائے۔
حیرت کی بات یہ تھی کہ ہم جب بھی جاتے، ویران بنگلے کی مٹی سے سارے ہی سکّے اٹھا کر لے آتے، لیکن پھر جب دوبارہ وہاں جاتے تو وہاں ہمیں پھر کئی سکّے پڑے مل جاتے۔ وہی پرانے اور ہرا ہرا زنگ لگے دھاتی سکے۔ ہمارے ننھے ذہنوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ جب ہم ایک دفعہ وہ سارے سکّے سمیٹ کر لے آتے تھے، تو پھر دوبارہ وہاں وہ سکّے کہاں سے آجاتے تھے؟ لیکن ہمیں اس بات سے کوئی غرض نہیں تھی۔ ہم تو بس یہ سمجھتے تھے کہ یا تو وہاں کوئی نیک اور سخی آدمی ہے جو روز ہمارے لیے سکّے بکھیر جاتا ہے، یا پھر یہ ریزگاری آسمان سے گرتی ہے۔
ایک دن ہم اسی طرح اَنی کے گھر کھیل رہے تھے۔ ہماری بہن زینب اس وقت تقریباً 7 سال کی ہوگی، وہ بھی ہمارے ساتھ ہی کھیل رہی تھی۔ کھیلتے کھیلتے اچانک اس کے ذہن میں کوئی خیال آیا اور وہ ہمیں کچھ بتائے بغیر اٹھی اور اکیلی ہی چپکے سے ویران بنگلے کی طرف چل دی۔ اس نے سوچا کہ کیوں نہ اس دن وہ اکیلی ہی وہاں جائے اور ویران بنگلے کی مٹی میں بکھرے سارے سکّے اکیلے ہی سمیٹ لے۔ ہم تو اپنے کھیل میں مگن تھے، ہمیں تو پتہ ہی نہیں چلا کہ زینب کب اٹھی اور کب دیوار میں بنے راستے سے ویران بنگلے کی طرف چلی گئی۔ ہمیں تو اس وقت پتہ چلا جب ویران بنگلے کی طرف سے اچانک ایک چیخ کی آواز سنائی دی۔
کوئی بچی زور زور سے چلا رہی تھی۔ چیخ سنتے ہی ہم سب چونکے اور اپنا اپنا کھیل چھوڑ کر ہکا بکا کھڑے ہوگئے۔ ایک وقفے کے بعد چیخ دوبارہ سنائی دی تو سب نے پہچان لیا کہ یہ زینب کی آواز تھی۔ ہم سارے بچے اور اَنی، سب اٹھے اور تیزی سے ویران بنگلے کی طرف لپکے۔ لیکن اسی وقت دیوار میں بنے راستے سے زینب تیزی سے دوڑتی ہوئی آئی اور اَنی سے لپٹ گئی۔ اس کا چہرہ خوف سے پیلا ہو رہا تھا، سانس بُری طرح پھولا ہوا تھا اور آنکھیں خوف سے پھیلی ہوئی تھیں۔
’کیا ہوا بچے کیا ہوا؟‘ اَنی نے زینب کو گلے سے لگا لیا۔
’وہ۔۔۔ اَنی۔۔۔ اُدھر۔۔۔آدمی۔۔۔‘ زینب کے منہ سے بس یہی بے ربط الفاظ نکلے۔ وہ خوف سے آنکھیں پھیلائے ویران بنگلے کی طرف اشارہ کر رہی تھی۔ اَنی زینب کو گود میں لے کر گھر میں اندر لے آئیں۔ ہم سب بچے بھی پیچھے پیچھے تھے۔ اَنی نے زینب کو ایک گلاس پانی دیا تو وہ فوراً ہی پی گئی۔ اب اس کی جان میں جان آئی۔ اَنی نے پھر اس سے پوچھا کہ کیا ہوا؟
زینب کہنے لگی کہ، ’اَنی وہاں میں ویران بنگلے میں گئی تاکہ آج مٹی میں پڑے سارے سکّے اکیلی ہی اکٹھے کرلوں۔ وہاں بہت سارے سکّے تھے۔ ابھی میں وہ سکّے اٹھانے کے لیے جھکی ہی ہوں گی کہ اچانک یوں لگا جیسے ویران بنگلے سے نکل کر کوئی میری طرف آ رہا ہے۔ میں نے چونک کر آنکھیں اٹھائیں اور بنگلے کی طرف دیکھا تو وہاں واقعی ایک آدمی کھڑا تھا۔ وہ سفید کپڑے پہنے ہوئے تھا، لیکن، لیکن۔۔۔‘ زینب چُپ ہوگئی۔
’لیکن کیا بیٹا؟ پوری بات بتاؤ۔‘ اَنی پچکار کر بولی۔
’اس کا۔۔۔ اس آدمی کا منہ نہیں تھا اَنی!‘، زینب بولتے بولتے یکدم رُکی۔ اس کی آنکھیں پھر خوف سے پھیل گئیں۔
’کیا مطلب اس کا منہ نہیں تھا؟‘ اَنی حیران ہوکر بولی۔
’جی اَنی۔ وہاں ایک آدمی کھڑا ہے جس کا منہ نہیں ہے۔ بس سفید سفید سر ہے۔ بالکل سیدھا دیوار کی طرح۔ نہ آنکھیں، نہ ناک، نہ منہ‘، زینب پھر اَنی سے لپٹ گئی۔
اَنی نے اسی وقت صالح صاحب کو آواز دی۔ پھر وہ دونوں تیزی سے ویران بنگلے کی طرف لپکے۔ ہم سارے بچے بھی ان کے پیچھے پیچھے دوڑے۔ ویران بنگلے کے اردگرد اجاڑ باغ میں مٹی تو اسی طرح بکھری ہوئی تھی جیسے ہمیشہ ہوا کرتی تھی، لیکن آج اس مٹی میں کہیں کوئی ایک بھی سکّہ پڑا نظر نہیں آ رہا تھا۔ جبکہ زینب نے بتایا کہ ابھی چند منٹ پہلے ہی جب وہ یہاں آئی تھی تو ہر طرف سکّے ہی سکّے بکھرے ہوئے تھے۔ اَنی اور اَنی کے میاں سیدھے ویران بنگلے کی طرف گئے اور تھوڑی دیر میں اس کے خالی کمروں میں ایک چکر لگا کر واپس باہر آگئے۔
’یہاں تو کوئی بھی نہیں ہے بیٹا‘، صالح صاحب بولے۔ ’تم ویسے ہی ڈر گئی ہوگی۔‘
’نہیں سائیں قسم سے، یہاں وہ سفید منہ والا آدمی کھڑا تھا ابھی تھوڑی دیر پہلے۔۔۔ یہاں اس جگہ‘، زینب ایک مقام کی طرف اشارہ کر کے بولی۔
’چلو کوئی بات نہیں، ہوگا کوئی‘، اَنی بولی۔ ’چلو۔ اب آئندہ یہاں کوئی نہیں آئے گا، سمجھ آئی‘، ان کے چہرے پر تشویش تھی۔
اس دن کے بعد ہم نے بھی ڈر کے مارے اس ویران بنگلے میں جانا چھوڑ دیا۔ کچھ دن بعد صالح صاحب ایک مستری کو لے کر آئے اور اینٹوں سے ویران بنگلے کی طرف جانے والے راستے کو بند کروادیا۔ ہمیں کچھ عرصے تو وہاں پڑے ہرے ہرے زنگ آلود سکّے یاد آتے رہے اور ہم سمجھتے رہے کہ اب تو وہاں روزانہ آسمان سے گرنے والے سکّوں کا انبار لگ گیا ہوگا کیونکہ اب وہاں جاکر ان سکوں کو اٹھانے والا جو کوئی نہیں تھا۔ لیکن پھر رفتہ رفتہ ہم ان سکّوں کو بھی بھول ہی گئے۔
آج اس بات کو 40 سے 50 سال ہوگئے ہیں۔ زینب باجی اب نانی دادی بن چکی ہیں، لیکن آج بھی کبھی باتیں کرتے کرتے میں انہیں اَنی کے ویران بنگلے کی یاد دلاتا ہوں تو ان کی آنکھیں اس سفید بے چہرہ انسان کو یاد کر کے پھر خوف سے پھیل جاتی ہیں۔
(جاری ہے)
عبیداللہ کیہر پیشے کے لحاظ سے میکینیکل انجینیئر، مگر ساتھ ہی سیاح، سفرنامہ نگار، پروفیشنل فوٹوگرافر اور ڈاکومنٹری فلم میکر ہیں۔ آپ کی اب تک 7 کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آبائی تعلق سندھ کے شہر جیکب آباد سے ہے۔ عمر کا غالب حصہ کراچی میں گزارا اور اب اسلام آباد میں رہتے ہیں.
عبیداللہ کیہر پیشے کے لحاظ سے میکینیکل انجینیئر، مگر ساتھ ہی سیاح، سفرنامہ نگار، پروفیشنل فوٹوگرافر اور ڈاکومنٹری فلم میکر ہیں۔ آپ کی اب تک 15 کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آبائی تعلق سندھ کے شہر جیکب آباد سے ہیں۔ عمر کا غالب حصہ کراچی میں گزارا اور اب اسلام آباد میں رہتے ہیں ۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔