رپورٹ کے مطابق چینی حکومت کا یہ ریکارڈ عوام کے لیے جاری نہیں کیا گیا، مگر اس سے ابتدائی دنوں میں مرض کے پھیلاﺅ کی رفتار کے بارے میں اہم سراغ ملتے ہیں اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تک چین میں کتنے کیسز رپورٹ ہوچکے تھے۔
سائنسدان اس پہلے مرض کی تلاش اس لیے بھی کرنا چاہتے ہیں تاکہ نئے کورونا وائرس کا باعث بننے والے ذریعے کا سراغ لگایا جاسکے، جس کے بارے میں ابھی سوچا جاتا ہے کہ یہ کسی جانور جیسے چمگادڑ سے ایک اور جانور میں گیا اور پھر انسانوں میں منتقل ہوگیا۔
نومبر میں رپورٹ ہونے والے 9 کیسز میں سے 4 مرد تھے اور 5 خواتین، ان میں سے فی الحال کسی کی بھی زیرو پیشنٹ کے طور پر تصدیق نہیں ہوسکی۔
ان سب کی عمریں 39 سے 79 سال کے درمیان تھیں مگر اب بھی یہ معلوم نہیں کہ ان میں سے ووہان کے رہائشی کتنے تھے۔
حکومتی ڈیٹا کے مطابق یہ بھی ممکن ہے کہ ایسے کیسز نومبر سے بھی پہلے رپورٹ ہوئے ہوں جن کی تلاش کا کام ہورہا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی ویب سائٹ کے مطابق چین میں کووڈ 19 کا پہلا مصدقہ کیس 8 دسمبر کو سامنے آیا تھا مگر یہ بھی واضح ہے کہ عالمی ادارہ کسی مرض کی بنیاد کا سراغ خود نہیں لگاتا بلکہ ممالک کی فراہم کردہ معلومات پر انحصار کرتا ہے۔
جریدے دی لانسیٹ میں ووہان کے جن ین تان ہاسپٹل کی تحقیق میں اولین مریضوں کی تاریخ یکم دسمبر دی گئی ہے۔