ہوم اینڈ اوے
دنیا بھر میں جتنی بھی پروفیشنل لیگز کھیلی جاتی ہیں ان میں سب سے دلچسپ چیز ہوم اینڈ اوے یعنی گھر اور گھر سے باہر کی بنیاد پر ہونے والے میچ ہوتے ہیں۔ یہیں سے ان لیگز کی معنویت میں اضافہ ہوتا ہے۔ مسابقت پھلتی پھولتی ہے اور مالیاتی لحاظ سے بھی یہ چیز مفید ہوتی ہے۔
پی ایس ایل کے سیزن 5 میں کراچی اور لاہور کے دونوں میچ ایسی ہی مسابقت کی تصویر پیش کرتے ہیں۔ تماشائیوں کا جوش ان کی محبت بھری عصبیت یہ سب دیکھنے لائق تھا۔ لیکن حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ یہ آخری میچ تھا جس میں تماشائیوں کو اسٹیڈیم میں داخلے کی اجازت تھی۔ پھر یہ معاملہ محض پی ایس ایل تک محدود نہیں بلکہ بھارت بمقابلہ جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا بمقابلہ نیوزی لینڈ کھیلی جانے والی سیریز بھی تماشائیوں کے بغیر منعقد ہورہی ہیں، اس لیے لگتا یہی ہے کہ یہ سلسلہ صرف کراچی تک محدود نہیں رہے گا بلکہ لاہور میں ہونے والے مقابلے بھی تماشائیوں کے بغیر ہی کھیلے جائیں۔
ٹیم منیجمنٹ جیسا کہ پہلے بھی متعدد بار بیان ہوچکا ہے کہ کوئی بھی کھیل اب صرف میدان میں نہیں کھیلا جاتا بلکہ کئی محاذ پر بیک وقت یہ سلسلہ چل رہا ہوتا ہے۔ ٹیلنٹ ایک طرف لیکن اگر آپ مخالف ٹیم کی خامیوں اور خوبیوں پر کام نہیں کریں گے تو آپ کسی بھی طور پر مسلسل نہیں جیت سکتے۔
حکمتِ عملی کی تیاری 2 طرح سے ہوتی ہے۔ ایک تو پوری لیگ کے لیے ٹیم کے چناؤ کا معاملہ تھا جس پر لاہور والے پہلے ہی تنقید کا نشانہ بنتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ عاقب جاوید کے خلاف مظاہرے بھی ہوچکے۔ اسی طرح ایک میچ سے دوسرے میچ تک حکمت عملی کی تیاری ایک علیحدہ چیز ہے اور یہاں بھی کراچی والے آگے نظر آئے۔
عمر خان کو انہوں نے ڈراپ کیا۔ یہ فیصلہ یقینی طور پر مشکل لیکن موثر فیصلہ تھا اور ثمر آور بھی ثابت ہوا۔ سابقہ تلخ تجربے کو مدِنظر رکھتے ہوئے لاہور کے خلاف کراچی کے کپتان عماد وسیم نے خود بھی کم باؤلنگ کی اور دیگر اسپنرز کو بھی پورا موقع نہیں دیا۔
ایک میچ کے آخر میں اسلام آباد یونائیٹڈ کے کپتان شاداب خان نے کہا تھا کہ لاہور والے ڈیٹا استعمال ہی نہیں کرتے، شاید انہوں نے ٹھیک ہی کہا تھا، مگر کراچی والے ایسے نہیں، ڈین جونز کے بعد بہت تبدیلی آئی ہے اور اچھے فیصلوں کے اچھے نتائج بھی سامنے آرہے ہیں۔
فخر ناقابلِ فخر فخر زمان جنہوں نے ایک زمانے میں پاکستان اور لاہور قلندرز کو کئی میچ جتوائے، مگر اس سال تو وہ ناقابلِ فخر بلکہ ناقابلِ فہم بلے بازی کرتے نظر آئے ہیں۔
گوکہ گزشتہ میچ میں انہوں نے نصف سنچری اسکور کی تھی لیکن اس میچ میں بھی وہ کھل کر کھیلتے ہوئے نظر نہیں آئے۔ اس میچ میں قابلیت سے زیادہ قسمت کے سہارے بنائے گئے رنز تھے۔ لاہور کی بدقسمتی یہ ہے کہ ان کے پاس فخر کا متبادل سلمان بٹ ہے۔ یعنی آگے کنواں اور پیچھے کھائی والی صورتحال۔
سہیل اختر کپتان جیسے بھی ہیں لیکن دل ان کا بڑا ہے اور حالات نے انہیں سکندر بننے کا موقع دیا ہے تو وہ اپنے حوصلے کی بنیاد پر خود کو سکندر بھی ثابت کرنا چاہ رہے ہیں۔ کم از کم بیٹنگ میں وہ بخوبی ذمہ داری نبھاتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ جو بات سرفراز احمد نہیں سمجھ پائے وہ بات سہیل اختر سمجھ چکے ہیں، یعنی سپہ سالار سب سے آگے ہوگا۔
ارشد اقبال کی سیکھنے کی صلاحیت ارشد اقبال کراچی کنگز کے ایمرجنگ کھلاڑی ہیں۔ انہیں ٹورنامنٹ کے شروع میں موقع ملا لیکن وہ مکمل ناکام نظر آئے۔ کراچی کو ملنے والی ابتدائی شکستوں میں ان کا بھی اہم کردار رہا ہے۔ اسی وجہ سے انہیں باہر بٹھا دیا گیا۔
لیکن نوجوان ہونے کے باوجود انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور وسیم اکرم اور ڈین جونز کی موجودگی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سے سیکھتے رہے۔ لاہور کے خلاف انہیں ایک بار پھر موقع ملا اور انہوں نے وہی کیا جو انہیں سکھایا اور بتایا گیا تھا۔
ایک نوجوان کی طرف سے ایسی خوبی کا اظہار بہت خوش کن ہے۔ ارشد نے خاص کر کرس لن اور بین ڈنک کو جو باؤلنگ کی وہ کمال تھی۔ انہیں دیکھ کر 80 کی دہائی کے ویسٹ انڈین فاسٹ باؤلر یاد آگئے جو اونچے لمبے قد اور لمبے بازوؤں کے سہارے بال کو بیٹسمین کے چہرے کے سامنے سے گزارنے کا ہنر بخوبی جانتے تھے۔ سچ پوچھیے تو انہیں دیکھ کر مزا آگیا۔ کرس لن کو انہوں نے ایسی ہی گیند پر قابو کیا اور بین ڈنک کو بھی چند عمدہ گیندیں کیں جو ان پر دباؤ بنانے میں مفید ثابت ہوئیں۔
بین ڈنک کی ناکامی بین ڈنک پر قلندروں نے بہت زیادہ انحصار کیا ہوا ہے، اور ایسا ہونا بھی تھا کہ ڈوبتے ہوؤں کو بینک ڈن کی صورت تنکا جو مل گیا ہے۔ لیکن کراچی والوں نے مکمل تیاری کی ہوئی تھی۔ سب سے پہلے تو انہوں نے محمد نواز، عماد وسیم اور عمر خان کی پٹائی یاد رکھی اور بین ڈنک کو لیفٹ آرم اسپنر نہیں دیا۔
پھر انہوں نے 4 فاسٹ باؤلر کھلائے جنہوں نے شارٹ باؤلنگ کی۔ اچھی رفتار سے باؤلنگ کرنے والے تمام ہی باؤلروں نے ڈنک اور کرس لن دونوں کو پچھلے قدموں پر دھکیلا۔ ڈنک کو اگر کوئی بال آگے کی طرف پھینکی بھی گئی تو وہ آف اسٹمپ سے خاصی دُور پھینکی گئی جہاں ڈنک کمزور ہیں۔ یہی فارمولا پشاور زلمی نے بھی اپنایا تھا اور ڈنک کو قابو کرلیا تھا۔
کراچی کی شاندار باؤلنگ اس سپر لیگ میں اوسط سے بھی بھی پست درجے کی کارکردگی اگر کسی بڑے کھلاڑی نے دکھائی ہے تو وہ محمد حفیظ ہیں۔ مسلسل ناکامیوں نے انہیں خاصا مجروح کیا ہے۔ اگرچہ کراچی کے خلاف اس میچ میں انہوں نے 35 رنز ضرور بنائے لیکن وہ اس مشکل وقت میں مزید اچھی بیٹنگ کرسکتے تھے، مگر کراچی والوں نے ان کو ایسا بالکل بھی نہیں کرنے دیا۔
محسن حدید
محسن حدید کرکٹ سے جنون کی حد تک لگاؤ رکھتے ہیں اور مختلف اخبارات اور ویب سائٹ کے لیے لکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔