مگر صرف پانی سے ہاتھ دھونا نہیں بلکہ ایک عام صابن اس وائرس کے خلاف اہم ترین ہتھیار ہے۔
جی ہاں واقعی صابن متعدد وائرسز جیسے نئے نوول کورونا وائرس کو ہاتھوں سے نکال پھینکتا ہے کیونکہ وہ وائرس کی چربی کی جھلی کو تحلیل کردیتا ہے۔
یہ بات نیو ساﺅتھ ویلز کے کیمسٹری پروفیسر فلی تھورڈسن نے ایک ٹوئٹر تھریڈ میں بتائی۔
ان کا کہنا تھا کہ چربی کی جھلی تحلیل ہونے پر وائرس تاش کے پتوں کے گھر کی طرح گرجاتا ہے اور غیرمتحرک ہوجاتا ہے۔
صرف پانی سے ایسا ہونا ممکن نہیں ہوتا کیونکہ اسے جلد اور وائرس کے درمیان موجود گلیو جیسے مضبوط تعلق کا سامنا ہوتا ہے، وائرس عام طور پر چپکنے والا ہوتا ہے اور آسانی سے سرکتا نہیں۔
پروفیسر فلی کا کہنا تھا کہ صابن والا پانی بالکل مختلف ہوتا ہے، صابن میں چربی جیسے اجزا ہوتے ہیں، کچھ ساخت کے لحاظ وائرس کی جھلی میں موجود لپڈ سے ملتے جلتے ہیں، تو صابن میں موجود مالیکیولز وائرس کی جھلی میں موجود لپڈ سے لڑتے ہیں۔
چونکہ ہمارے ہاتھ کافی سخت اور جھریوں والے ہوتے ہیں، تو ہمیں ان کو رگڑنے اور بھگونے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ صابن جلد کے ہر حصے پر پہنچ جائے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ صابن وائرسز کو غیرمتحرک کرنے میں دیگر مصنوعات سے بہتر کیوں ہے ' جراثیم کش یا لیکوئیڈ، وائپس، جیل اور کریموں کا اثر بھی صابن سے ملتا جلتا ہوتا ہے مگر وہ عام صابن جتنے اچھے نہیں ہوتے، ان مصنوعات میں بیکٹریا کش اثرات وائرس کی ساخت پر اثرانداز نہیں ہوتے'۔
انہوں نے کہا 'بیشتر اینٹی بیکٹریل مصنوعات بنیادی طور پر صابن کے مہنگے ورژن ہوتی ہے، صابن بہترین ہوتا ہے مگر الکحل والے وائپس اس وقت اچھے ہوتے ہیں جب صابن دستیاب نہ ہوں (جیسے دفاتر یا پبلک ٹوائلٹ وغیرہ)۔
امریکا کی رٹگیوس یونیورسٹی کے پروفیسر ڈونلڈ اسکافنر نے اس بارے میں کہا کہ صابن صابن وائرسز کو ہاتھ دھونے کے دوران جلد سے نکال پھینکتے ہیں م جبکہ ہینڈ سینیٹائزر وائرس کو ہاتھوں میں غیرمتحرک کردیتے ہیں، تو آپ دونوں کو استعمال کرکے اثر زیادہ بڑھا سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پانی کا درجہ حرارت کوئی بھی ہو صابن کے ساتھ وائرس کے خلاف موثر ثابت ہوتا ہے، بس لوگوں کو ہاتھوں کے تمام حصوں کی صفائی کی مشق کرنی چاہیے اور ایسی جگہوں پر خصوصی توجہ دینی چاہیے جہاں مٹی پھنس جاتی ہو جیسے ناخنوں کے نیچے۔