پاکستان

بحریہ ٹاؤن کی جمع کروائی گئی رقم کے استعمال کیلئے کمیٹی بنانے کی تجویز

رقم کو منصوبوں پر خرچ کرنے کے حوالے سے وفاقی اور صوبائی حکومت کا کوئی عمل دخل نہ ہو، سپریم کورٹ میں اٹارنی جنرل کی تجویز
|

اسلام آباد: وفاقی حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں تجویز پیش کی گئی ہے کہ بحریہ ٹاؤن کراچی کی جانب سے جمع کروائی جانے والی رقم کے استعمال میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے اعلیٰ سطح کی کمیٹی بنائی جائے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 3 رکنی بینچ کے سامنے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے مؤقف اختیار کیا کہ بحریہ ٹاؤن کی جانب سے اب تک جمع کروائے گئے 57 ارب روپے سندھ کے عوام کے ہیں۔

یاد رہے کہ 21 مارچ 2019 کو سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے عدالت عظمیٰ کے 4 مئی 2018 کو دیے گئے فیصلے کے اطلاق کے لیے بحریہ ٹاؤن کراچی کی جانب سے 4 کھرب 60 ارب روپے کی پیشکش قبول کی تھی۔

مذکورہ پیشکش صرف بحریہ ٹاؤن سپرہائی وے پروجیکٹ سے متعلق ہے جو 16 ہزار 8 سو 96 ایکڑ زمین پر محیط ہے۔

فنڈ کے استعمال کے حوالے سے ہونے والی سماعت میں اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ مناسب ہوگا کہ پراپرٹی ڈیولپر کی جمع کروائی گئی اور آئندہ جمع کروائی جانے والی مکمل رقم شفاف اور درست طریقے سے سندھ کے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوں۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت سندھ کا بحریہ ٹاؤن تصفیہ فنڈ کیلئے دوبارہ سپریم کورٹ سے رجوع کا فیصلہ

تاہم ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے اس خیال کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت کو اعتراض ہے کہ وفاقی حکومت اسے بتائے کہ کون سا ترقیاتی منصوبہ شروع کرنا ہے اور کونسا چھوڑنا ہے۔

اس تجویز کو قبول کرنے کا مقصد سندھ کا اس حوالے سے کوئی عمل دخل نہیں ہوگا کہ کن منصوبوں پر رقم خرچ کی جانی چاہیے، ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا کہ وفاقی حکومت کس طرح حکومت سندھ کے ترجیحی لحاظ سے زیر غور منصوبوں میں مداخلت کرسکتی ہے۔

انہوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پھر صوبائی خود مختاری کا کیا ہوگا، صوبائی حکومت عدالت عظمیٰ کی بات سننے کو تیار ہے لیکن وفاقی حکومت کے ساتھ بیٹھنے کے لیے نہیں۔

مزید پڑھیں: حکومت سندھ نے بحریہ ٹاؤن تصفیہ فنڈز کیلئے دوبارہ سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا

انہوں نے عدالت کو یقین دلایا کہ سندھ حکومت منصوبوں کی نشاندہی کر کے اشتراک کے لیے تیار ہے۔

تاہم سپریم کورٹ نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو وفاقی حکومت کی تجویز پر تحریری جواب جمع کروانے کی ہدایت کی، جس پر سلمان طالب الدین نے کہا کہ وہ یہ تجاویز غور کے لیے سندھ کابینہ میں پیش کریں گے۔

بعدازاں کیس کی سماعت 2 اپریل تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔

خیال رہے کہ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے تجویز دی تھی کہ چیف جسٹس پاکستان کی مشاورت سے سپریم کورٹ، سندھ سے تعلق رکھنے والے کسی سابق جج کو کمیٹی کا چیئرمین بنائیں۔

اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کروائی کہ بحریہ ٹاؤن کی جمع کروائی گئی رقم کو منصوبوں پر خرچ کرنے کے حوالے سے وفاقی اور صوبائی حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کی 460 ارب روپے کی پیشکش قبول کرلی

سماعت میں جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عدالت سندھ حکومت کی جانب سے شروع کیے گئے منصوبوں کی حالت زار دیکھ چکی ہے۔

انہوں نے یاد دہانی کروائی کہ کس طرح وفاقی حکومت کی جانب سے صوبائی حکومت کو آؤٹ فال کینال کے لیے دیے گئے 6 ارب روپے غائب کردیے گئے اور اس کے ذمہ دار افسران جنہیں معطل کیا گیا تھا بعد میں ترقیاں دے دی گئیں۔

اٹارنی جنرل سے تجویز دی کہ بحریہ ٹاؤن کراچی کی جانب سے جمع کروائی جانے والی رقم سندھ میں شہری اور دیہی منصوبوں پر 50، 50 فیصد کے تناسب سے خرچ کی جانی چاہیے۔

مزید پڑھیں:بحریہ ٹاؤن کراچی: لالچ اور قبضے کا لامحدود سلسلہ

انہوں نے کہا کراچی میں یہ رقم انفرا اسٹرکچر منصوبوں پر جب دیہی علاقوں میں غریب عوام کے لیے ہسپتالوں، ہاؤسنگ اسکیمز، اسکول اور نظامِ نکاسی آب پر خرچ کی جانی چاہیے۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ منصوبوں پر خرچ کی جانے والی رقم کا آڈیٹر جنرل پاکستان اور مجوزہ کمیٹی کے نامزد کردہ آزاد اور معتبر آڈیٹر سے آڈٹ بھی کروایا جائے۔

علاوہ ازیں کمیٹی منصوبوں پر غور کے حوالے سے عدالت عظمیٰ میں وقتاً فوقتاً پیشرف رپورٹ بھی جمع کرواتی رہے۔

ٹک ٹاک ویڈیوز بنانے پر معطل ہونے والی بھارتی خاتون کانسٹیبل کو فلموں کی پیش کش

کوئٹہ میں کورونا وائرس کا پہلا کیس سامنے آگیا، پاکستان میں مجموعی تعداد 19 ہوگئی

افغان صدر نے طالبان قیدیوں کی رہائی کے فرمان پر دستخط کر دیے