ماہرین نے ایک مریض کو اسٹیم سیل ٹرانسپلانٹ ٹریٹمنٹ کے ذریعے ایچ آئی وی سے نجات دلانے میں کامیابی حاصل کی ہے اور روایتی طریقہ علاج روکے جانے کے 30 ماہ بعد بھی انفیکشن کے آثار کو دریافت نہیں کیا جاسکا۔
درحقیقت یہ کامیابی 2016 میں حاصل کی گئی تھی اور اس وقت مریض کے خون میں یہ وائرس مکمل طور پر غائب ہوگیا تھا اور پھر ڈھائی سال تک اسے روایتی علاج سے روک کر اس کی مانیٹرنگ کی گئی۔
اس مریض کے حوالے سے اپ ڈیٹ گزشتہ سال مارچ میں بھی سامنے آئی تھی جب سائنسدانوں نے 18 ماہ بعد بھی اس کے خون میں ایچ آئی وی وائرس کو دریافت نہیں کیا۔
اب تحقیقی ٹیم نے تحقیق کے نتائج دی لانسیٹ ایچ آئی وی میں شائع کرتے ہوئے بتایا ہے کہ نئے ٹیسٹ کے نتائج پہلے سے زیادہ حیرت انگیز ہیں اور ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مریض مکمل صحت یاب ہوچکا ہے۔
تحقیقی ٹیم کے قائد رویندرا گپتا کے مطابق 'ہم نے جسم کے ایسے حصوں کے ٹیسٹ کیے جہاں ایچ آئی وی چھپنا پسند کرتا ہے اور سب ٹیسٹ منفی رہے'۔
اس مریض کو پہلے لندن پیشنٹ کا نام دیا گیا تھا اور اب اس کی شناخت بھی ظاہر کردی گئی ہے۔
40 سالہ ایڈم کاسیلیجو میں ایچ آئی وی کی تشخیص 2003 میں ہوئی اور ادویات کے ذریعے اس نے مرض کو 2012 تک کنٹرول میں رکھا۔
مگر اسی سال اس میں بلڈ کینسر کی ایک قسم کی تشخیص ہوئی تھی اور 2016 میں اس کے علاج کے لیے بون میرو ٹرانسپلانٹ ہوا جس کے لیے ایسے ڈونر کی خدمات حاصل کی گئی تھی جس میں ایسی جینیاتی تبدیلی ہوچکی تھی جو ایچ آئی وی انفیکشن کے خلاف مزاحمت کرتی ہے۔
اس طرح وہ تاریخ کا دوسرا فرد بن گیا جس نے ایچ آئی وی کو شکست دی، اس سے قبل 2011 میں ایک امریکی شہری ٹموتھی براﺅن نے بھی اسی طریقے سے ایچ آئی وی سے نجات پائی تھی۔
محققین کا کہنا تھا کہ برطانوی مریض کے ٹیسٹوں میں ایچ آئی وی کے ذرات دریافت ہوئے تھے جو دوبارہ بڑحنے کی صلاحیت نہیں کرتے اور محفوظ سمجھے جاسکتے ہیں اور ہمیں اس کی توقع تھی۔
ان کے بقول 'یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ ایک ایسے وائرس کا مکمل خاتمہ ہوجائے تو اربوں خلیات کو متاثر کرچکا ہو'۔
تاہم محققین نے خبردار کیا کہ یہ پیشرفت ایچ آئی وی کا عام علاج نہیں بلکہ آخری طریقہ ہے کیونکہ یہ مریض اس کے بغیر بلڈ کینسر کے نتیجے میں ہلاک ہوجاتا۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس وقت متعدد مریضوں پر اس طریقہ علاج کو آزمایا جارہا ہے مگر ان میں بیماری کے خاتمے کے لیے وقت درکار ہوگا۔