دنیا

حریف صدارتی تقریبات سے مذاکرات خطرے میں پڑ سکتے ہیں، طالبان

سیاستدانوں کے درمیان اختلافات کے باعث صدارتی حلف برداری کی 2 تقریبات ہورہی ہیں، ذبیح اللہ مجاہد

کابل: طالبان عسکریت پسندوں نے کہا ہے کہ افغان حکومت کے ساتھ رواں ہفتے امن مذاکرات نہیں ہوسکتے کیوں کہ عہدہ صدارت کے دونوں حریف پیر کے روز (آج) حلف اٹھانے کی تقریب منعقد کریں گے، انہوں نے زور دیا کہ اس کے بجائے جنگ کے خاتمے پر توجہ دیں۔

ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ دوحہ میں طے پانے والے معاہدے کے تحت امریکا افغان حکومت کو طالبان سے بات چیت کرنے کے لیے متحرک کرنے کی کوشش کررہا ہے جس کا آغاز منگل کو ہوگا۔

لیکن متوازی حکومتوں کا خطرہ اس جنگ کے خاتمے کے لیے شروع ہونے والے نئے عمل کو متزلزل کررہا ہے جس میں ستمبر 2001 میں امریکا کے افغانستان پر حملے کے بعد سے لاکھوں لوگ ہلاک ہوچکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ممکن ہے کہ طالبان دوحہ معاہدے کی پاسداری نہ کریں، امریکی انٹیلی جنس

خیال رہے کہ فروری میں افغانستان کے الیکٹورل کمیشن نے صدارتی انتخابات میں موجودہ صدر اشرف غنی کی کامیابی کا اعلان کیا تھا لیکن ان کے سخت ترین حریف عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ وہ اور ان کے اتحادی انتخاب جیتے ہیں اور اصرار کیا کہ حکومت وہ ہی بنائیں گے۔

اس سلسلے میں اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ دونوں نے پیر کے روز حلف برداری کے دعوت نامے تقسیم کر رکھے ہیں۔

اس ضمن میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ’ہمارا نہیں خیال کہ وہ 10 مارچ کو بین الافغان مذاکرات کرنے کے لیے تیار ہوں گے، سیاستدانوں کے درمیان اختلافات کے باعث صدارتی حلف برداری کی 2 تقریبات ہورہی ہیں'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ وہ حلف اٹھانے کے بجائے بین الافغان مذاکرات پر توجہ دیں، ہمارا ان سے مطالبہ ہے کہ آپس کے اختلافات کو چھوڑیںِ حلف نہ اٹھائیں اور امن کے لیے کام کریں‘۔

مزید پڑھیں: امریکا-طالبان معاہدہ: افغان صدر نے طالبان قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ مسترد کردیا

اس میں ایک اور سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ امریکا-طالبان معاہدے کے تحت حکومت کی جانب سے 5 ہزار قیدیوں کو رہا کرنے کی شرط پر عملدرآمد کے لیے کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا گیا، اس مطالبے کو اشرف غنی نے مسترد کردیا تھا۔

ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ بہرحال دونوں فریقین کی جانب سے قیدیوں کے معاملات کے عہدیداران نے ہفتے اور اتوار کے روز دوحہ میں ملاقات کی جو امریکا-طالبان کے درمیان فوجوں کے انخلا کے معاہدے کے بعد افغان حکومتی عہدیداران کے ساتھ ہونے والا پہلا رابطہ تھا۔

دوسری جانب صدارتی ترجمان نے اس بات پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا کہ یہ ملاقات ہوئی یا نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: افغان امن معاہدے کے اہم نکات

طالبان ترجمان نے اس بات پراصرار کرتے ہوئے کہ یہ باضابطہ بین الافغان مذاکرات نہیں تھے اور کہا کہ ملاقات میں قیدیوں کی رہائی کے تکنیکی پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا مثلاً قیدیوں کی فہرست کی تیاری اور ان کی شناختی تفصیلات وغیرہ۔

ادھر سفارتی اور سیاسی ذرائع کا کہنا تھا کہ امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد صورتحال میں آنے والے تعطل کو حل کرنے کے لیے عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی دونوں کے دھڑوں سے بات چیت کررہے ہیں۔

امریکا، روس کا ’اسلامی امارات افغانستان‘ کو قبول کرنے سے انکار

نیویارک میں کورونا وائرس کے 105 کیسز، ایمرجنسی نافذ

کراچی میں کورونا وائرس کے ایک اور کیس کی تصدیق