تحریک آزادی کا ایک اہم کردار رئیس غلام محمد بھرگڑی اور ان کی حویلی
زمیندار سے بیرسٹر بننے تک کی کہانی
تحریر و تصاویر: اختر حٖفیظ
ہر ویران گھر، عمارت یا تاریخی مقام کے آباد اور غیر آباد ہونے کی الگ الگ کہانیاں ہوتی ہیں، وہ کہانیاں ہم کبھی کتابوں میں پڑھتے اور کبھی لوگوں کی زبانی سنتے ہیں۔ جیسے جیسے وقت گزرتا ہے، ویسے ویسے ان کی حالت خستہ ہوتی جاتی ہے۔ لیکن ان کے باقی ماندہ آثار پھر بھی ہمیں اس زمانے کی یاد دلاتے رہتے ہیں جب سب کچھ اچھا تھا۔
آج میں تحریکِ آزادی کے ایک ایسے کردار کو یاد کرنا چاہتا ہوں جو اب گمنام سا دکھائی دیتا ہے اور آج ان کی حویلی کھنڈرات میں تبدیل ہوچکی ہے۔ حویلی کی ریزہ ریزہ ہوتی اینٹیں، ٹوٹی پھوٹی چھت اور دیواروں سے اکھڑتی ہوئی کھڑکیاں اور دروازے شاید مزید چند برس وقت کی مار کو برداشت نہ کرسکیں۔
اس شخصیت کو دنیا رئیس غلام محمد بھرگڑی کے نام سے جانتی ہے۔ میں نے جب ان کی حویلی کی جانب سفر شروع کیا تو میرے ساتھ رجب علی تھے۔ رجب ان کچے پکے راستوں سے بخوبی واقف تھے جو ڈینگان بھرگڑی میں کھلے میدان میں تنِ تنہا کھڑی حویلی کو جاتے ہیں۔
اگر ہم برِصغیر کی تحریکِ آزادی کی تاریخ کا جائزہ لیں تو رئیس غلام محمد بھرگڑی کا نام بلاشبہ ایک متحرک کردار کے طور پر نظر آئے گا۔ انہوں نے تحریکِ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ وہ غیر معمولی سیاسی قد کی حامل شخصیت تھے۔ ان کا جنم ضلع میرپورخاص کے تعلقہ جیمس آباد (کوٹ غلام محمد) کے قریب واقع گاؤں ڈینگان بھرگڑی میں 15 جولائی 1878ء کو ہوا۔ ان کے آباؤ اجداد کا تعلق ڈیرہ غازی خان سے تھا۔ ان کے بزرگ بھرگڑھ سے ہجرت کرکے تالپوروں کی صاحبی میں سندھ میں آباد ہوئے اور بھرگڑی کہلائے۔
تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں کہ مہاتما گاندھی کے ساتھ پیش آئے ایک واقعے نے ان کی شخصیت کو یکسر بدل کر رکھ دیا تھا، واقعہ کچھ یوں تھا کہ ایک بار ٹرین میں سفر کے دوران ایک گورے عملدار نے انہیں فرسٹ کلاس میں سفر کرنے سے منع کردیا اور ٹرین سے انہیں سامان سمیت باہر دھکیل دیا۔ اس واقعے کے بعد انہوں نے ہندوستان سے انگریزوں کے خلاف جدوجہد شروع کی۔
رئیس غلام محمد بھرگڑی کی زندگی میں بھی ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا، جس کی وجہ سے وہ نہ صرف تحریکِ آزادی کے اہم ترین کردار بنے بلکہ اس واقعے نے ان کی شخصیت میں بھی کافی تبدیلیاں پیدا کردی تھیں۔ سیاسی میدان میں اترنے کا انہوں نے کبھی ارادہ نہیں کیا تھا کیونکہ ان کی اپنی اچھی خاصی زمینداری تھی اور ایک آرامدہ زندگی گزارنے کے سارے وسائل دستیاب تھے۔
ہوا یوں کہ ایک رات تھرپارکر میں شادی پلی اسٹیشن کے قریب ایک ڈاک بنگلے میں ان کا ٹھہرنے کا اتفاق ہوا، لیکن اچانک انہیں یہ بنگلا خالی کرنے کا حکم دیا گیا کیونکہ اس رات کسی انگریز عملدار کو رات کا قیام کرنا تھا مگر انہوں نے بنگلا خالی کرنے سے انکار کردیا۔ ان کے انکار پر اسسٹنٹ کلیکٹر ان پر برہم ہوگئے اور انہیں اس وقت کے قانون کے تحت سزا دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس موقعے پر کسی شخص نے انہیں یہ بھی کہا کہ اگر وہ بیرسٹر ہوتے تو وہ اس بنگلے میں ٹھہر سکتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے بنگلا خالی کیا اور اپنے دوستوں کے مشورے سے وہ بیرسٹری پڑھنے کے لیے انگلینڈ روانہ ہوگئے اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1908ء میں وطن واپس لوٹ آئے۔