’یوم خواتین‘: وجود زن پر ظلم کی داستان سنانے والی چند تحاریک
دنیا بھر میں خواتین کا استحصال کوئی نئی بات نہیں، صنفی امتیاز، گھریلو تشدد، جنسی ہراسانی، ریپ اور معاشرے میں قدامت پسند روایات کے باعث عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ یہ معاشرہ صرف مرد کا ہے اور گھر سے لے کر آفس یا کام کی جگہ تک اور شادی جیسے زندگی کے اہم فیصلے سے لے کر دیگر امور تک ہر جگہ مرد کی مرضی ہی چلے گی۔
مگر اس وقت دنیا بھر میں چلنے والی خواتین کی تحریکوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ صدیوں پرانا فرسودہ نظام اب زیادہ دن نہیں چل سکے گا۔
آج کی عورت تعلیم یافتہ ہے اور وہ جان چکی ہے کہ اس کے جائز حقوق کون سے ہیں اور وہ ان کے حصول کے لیے آواز اٹھانے کی ہمت بھی رکھتی ہے، دنیا بھر میں ظلم، زیادتی اور استحصال کا شکار خواتین کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے اور ان میں اس حوالے سے شعور و آگاہی بیدار کرنے کے لیے بہت سی تنظیمیں سرگرم ہیں جو خواتین کے حالت بہتر بنانے کے لیے انہیں روزگار اور مالی مدد بھی فراہم کرتی ہیں۔
اس کے علاوہ ان تنظیموں کی رضاکار خواتین ایسی فعال تحریکوں کا حصہ ہیں جنہیں اپنی بہترین کاوشوں کی بدولت عالمی سطح پر پذیرائی حاصل ہوئی، آئیے عالمی یوم نسواں کے موقع پر ایسی تحاریک کا جائزہ لے کر دیکھتے ہیں کہ یہ دنیا کے مختلف خطوں میں خواتین کو ان کے حقوق دلانے میں کس طرح کامیاب ہوئیں۔
بھارت
بھارت وسیع آبادی والا ایک ایسا ملک ہے جہاں دہلی اور ممبئی جیسے شہروں میں آزاد اور خود مختار خواتین نظر آئیں گی تو وہیں کچھ ریاستوں اور دیہی علاقوں میں ایسی خواتین بھی ملیں گی جو غربت کی حد سے نیچے رہنے کے علاوہ جانوروں کی طرح ایک جنسی آلے کے طور پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، جن کی زندگی کا واحد مقصد اپنے گھر کے مردوں کی خدمت اور بچے پیدا کرنا ہے۔
اس کے علاوہ ذات پات کی تفریق اور ہر سطح پر مذہبی منافرت کی وجہ سے بھی بھارت عالمی شہرت رکھتا ہے، مذہبی منافرت کی ہی وجہ سے بھارت کی ریاست کیرالہ میں واقع سبری مالا مندر میں ایسی خواتین کا داخلہ ممنوع ہے جو اپنے ماہانہ ایام سے ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: وجودِ زن سے ہے اقتصادی و سماجی ترقی ممکن
یہ رسم مندر میں طویل عر صے سے رائج ہے اور اگر کوئی ایسی خاتون پوجا کے لیے مندر میں داخل ہونے کی کوشش کرے تو اس کے ساتھ وحشیانہ سلوک کیا جاتا ہے، مگر بدلتے زمانوں میں جہاں بھارت میں اور بہت کچھ تبدیل ہوا ہے وہاں فرسودہ روایات اور ذات پات کے سسٹم پر بھی تنقید بڑھتی جا رہی ہے اور پچھلے برس بھارت کی سپریم کورٹ نے اس پابندی کو غیر قانونی بھی قرار دیا تھا مگر کٹر ہندو اس حکم کی تکمیل کی راہ میں حائل تھے۔
جن خواتین نے سپریم کورٹ کے آرڈر کے بعد مندر میں داخل ہو نے کی کوشش کی انہیں مندر انتظامیہ کی جانب سے ہراساں اور ٹارچر بھی کیا گیا، پچھلے برس جنوری میں کیرالہ کی مقامی خواتین اس سلوک کے خلاف ڈٹ گئیں اور انہوں نے ہاتھوں سے ہاتھ ملا کر 300 میل طویل زنجیر بنا کر مظاہرہ کیا۔
اس مظاہرے کے 2 دن بعد 2 خواتین رہنما جن میں سے ایک یونیورسٹی کی پروفیسر اور دوسری حکومتی ملازم تھیں وہ رکاوٹیں عبور کرتی ہوئی مندر کے اندرونی حصے میں جا پہنچیں، جس کے بعد مندر انتظامیہ، مقامی کٹر ہندوؤں اور مظاہرین کے درمیان فسادات کا آغاز ہوا اور پولیس کو مداخلت کرنا پڑی۔
مگر یہ خواتین کسی صورت پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھیں، مجبورا مندر انتظامیہ کو اپنی ہٹ دھرمی ختم کرتے ہوئے ان خواتین کو مندر میں داخلے کی اجازت دینا پڑی، اگرچہ یہ ایک ریاست میں واقع مندر سے متعلق ایک چھوٹا واقعہ تھا مگر بعد ازاں اس کے دور رس نتائج برآمد ہوئے اور ہندو رسم و رواج میں رائج فرسودہ رسومات اور توہمات کے خلاف ملک بھر سے آواز اٹھائی گئیں جس میں نچلی ذات کے مرد حضرات بھی شامل تھے۔
یعنی چند خواتین کی ایک معمولی تحریک سیکیولر بھارت میں رائج کٹر ہندوانہ رسوم میں زبردست دراڑ ڈالنے کا باعث بنی جس سے نریندر مودی کی حکومت کو بھی ایک بڑا پیغام ملا کہ بھارت میں مسلمان ہی نہیں نچلی ذات کے ہندوؤں میں بھی ان کے خلاف نفرت بڑھتی جا رہی ہے۔