کیا ہمارا کپتان کورونا سے لڑنے کے لیے تیار ہے؟
کیا ہم کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں؟
ناگزیریت اپنے اندر ایک بوجھ ہے۔ آج ملک کے اندر کورونا وائرس سے متاثر افراد کی حتمی تعداد 6 بتائی جا رہی ہے، اور اس تعداد میں گزرتے وقت کے ساتھ اضافہ ہوتا جائے گا۔ لیکن مزید کتنے کورونا وائرس کے کیس سامنے آئیں گے؟ اور کس تیزی سے یہ اضافہ ہوسکتا ہے؟ یوں لگتا ہے کہ ہم ایک بار پھر اسی نکتے پر پہنچ چکے ہیں جہاں جوابوں سے زیادہ سوال پیدا ہوتے ہیں۔
یہ یقیناً ڈراؤنا ہے۔ لیکن پاکستان میں دنیا کے دیگر حصوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ خوف نہیں پایا جاتا۔ فی الحال تو ہم کورونا وائرس کی وبا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے اپنی ہی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے خود کو شاباشیاں دے رہے ہیں۔ حکومت نے بڑے ناز کے ساتھ اس منطق کو طول دیا ہے کہ چین اور ایران کے پڑوسی ہونے کے باجود بھی ہمارے ہاں صرف 6 مریض اس وائرس سے متاثر ہیں۔ تو یہ اچھی بات ہے۔ ہے نا؟
شاید۔ ایسی صورتحال میں ہمارا معاشرہ بھی فکر کا دامن چھوڑتا نظر آتا ہے۔ بلاشبہ ہمارے ہاں لوگ ماسک اور سینیٹائزر خرید رہے ہیں، کہیں کہیں شادیوں کی تقاریب منسوخ بھی کی جا رہی ہیں لیکن اجتماعی طور پر ہم اب بھی ’سب نارمل ہے‘ کی دھن پر جھوم رہے ہیں۔
یہ بلاوجہ نہیں بلکہ حکومت ہمیں اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے تیار ہی نہیں کر رہی ہے جس کا سامنا ہمیں ممکنہ طور پر کچھ وقت میں کرنا پڑسکتا ہے، اور حکومت ہمیں یہ بھی نہیں بتا رہی ہے کہ اگر آئندہ ہفتوں یا مہینوں میں اگر کورونا وائرس کا بحران شدت اختیار کرلیتا ہے تو اس سے نمٹنے کے لیے ان کے پاس کیا منصوبہ بندی ہے۔
چند افراد اسے بہادری پکار سکتے ہیں، کچھ لوگ اسے تردید کہہ سکتے ہیں جبکہ کچھ افراد کے نزدیک یہ عملی تقدیر پسندی ہے لیکن یہ سچ اپنی جگہ موجود ہے کہ حکومت کا ردِعمل متوقع خطرے کے ہم پلہ بالکل بھی نہیں ہے۔