سندھ نے گندم کے بحران کی ذمہ داری وفاق پر ڈال دی
کوئٹہ: وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے وفاقی حکومت پر ملک میں حالیہ گندم بحران کی ذمہ داری عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی حکومت کی غلط زرعی پالیسیوں کی وجہ سے یہ بحران پیدا ہوا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ بات انہوں نے کوئٹہ کے دورے کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے صوبائی صدر علی مدد جتک کے گھر 'جتک ہاؤس' میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے سندھ حکومت پر گندم بحران کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ سچ ہے تو پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں اس کی قیمتیں کیوں بڑھی تھیں؟
مزید پڑھیں: عمران خان کی جگہ ہوتا تو سندھ، پنجاب کے وزرائے اعلیٰ کو برطرف کردیتا، فواد چوہدری
انہوں نے طنزیہ لہجے میں کہا کہ 'اگر سندھ حکومت اتنی طاقتور ہے کہ وہ دیگر صوبوں میں بھی بحران پیدا کرسکتی ہے تو وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ سندھ حکومت کو ان صوبوں میں بھی حکمرانی کرنے دے'۔
خیال رہے کہ جنوری کے مہینے میں ملک میں آٹے اور چینی کے بحران کی وجہ سے ان کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا تھا اور مختلف صوبوں میں کہیں آٹا دستیاب نہیں تھا جبکہ کہیں اس کی قیمت عوام کی قوت خرید سے باہر تھی۔
مذکورہ بحران کے پیش نظر اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے ریگولیٹری ڈیوٹی کے بغیر 3 لاکھ ٹن گندم کی درآمد کی اجازت دی تھی۔
سندھ اور وفاق کے درمیان صوبے کے انسپکٹر جنرل کے تنازع کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ سندھ کے انسپکٹر جنرل صوبے میں جرائم کو روکنے میں ناکام ہوگئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'گزشتہ ڈیڑھ سال میں پنجاب میں 5 آئی جی تبدیل ہوئے کیونکہ صوبائی حکومت اور وزیر اعلیٰ کو ان کے تبادلوں کا اختیار حاصل ہے تاکہ صوبائی امور آرام سے چلائے جاسکیں'۔
وزیر اعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہا کہ 'میں نے وزیر اعظم عمران خان سے آئی جی سندھ کے تبادلے کی بات کی اور انہوں نے مجھے یقین دہانی کرائی کہ یہ مسئلہ حل ہوگا'۔
مراد علی شاہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ سرکاری افسران اپوزیشن کی خواہش پر تعینات نہیں کیے جاسکتے۔
انہوں نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے بعد یہ صوبوں کا اختیار ہے کہ وہ آئی جی اور دیگر انتظامی افسران کی تعیناتی اور تبادلوں کے حوالے سے فیصلے کرے۔
یہ بھی پڑھیں: مشتاق مہر نئے آئی جی سندھ تعینات، نوٹیفکیشن جاری
واضح رہے کہ آئی جی سندھ کلیم امام کے معاملے پر وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان تناؤ تھا اور آئی جی سندھ پر اصولوں کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے ہوئے سندھ کابینہ نے انہیں عہدے سے ہٹانے اور ان کی خدمات وفاق کو واپس دینے کی منظوری دی تھی۔
صوبائی حکومت کی جانب سے آئی جی سندھ پر سنگین نوعیت کے الزامات عائد کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ان کے دور میں صوبے میں امن و امان کی صورتحال خراب ہوئی اور ساتھ ساتھ سندھ پولیس کے سربراہ پر حکومت کے احکامات نہ ماننے کا بھی الزام لگایا گیا تھا۔
حکومت سندھ نے گزشتہ ماہ کابینہ کی منظوری کے بعد کلیم امام کی خدمات وفاق کو واپس کرتے ہوئے نئے آئی جی کے لیے نام بھی دیے تھے۔
دوسری جانب وفاقی حکومت نے سندھ حکومت کی درخواست پر آئی جی سندھ کو فوری ہٹانے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ صوبائی حکومت کی درخواست زیر غور ہے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے بھیجے گئے خط میں کہا گیا تھا کہ ماہرین اس درخواست کا جائزہ لے رہے ہیں اور درخواست پر فیصلہ ہوتے ہی آگاہ کردیا جائے گا اور حتمی فیصلہ ہونے تک کلیم امام ہی آئی جی سندھ رہیں گے اور قانون کے تحت کسی بھی ایڈیشنل آئی جی کو آئی جی کا اضافی چارج نہیں سونپا جائے گا۔
بعد ازاں 28 فروری کو وفاقی حکومت نے آئی جی پولیس سندھ کلیم امام کی جگہ مشتاق مہر کو نیا آئی جی تعینات کرنے کی منظوری دی تھی اور نوٹی فکیشن بھی جاری کردیا گیا تھا۔