صحت

انسانی پَیروں میں محراب جیسی ساخت کیا کام کرتی ہے؟

آپ نے کبھی ٹانگوں کے آخر میں واقع پَیروں کے بارے میں سوچا نہیں ہوگا اور اپنے جسم کے حیران کن حصے کو نظرانداز کردیا ہوگا۔

آپ نے شرطیہ کبھی بھی اپنی ٹانگوں کے آخر میں واقع 2 حصوں کے بارے میں سوچا نہیں ہوگا اور اس طرح اپنے جسم کے حیران کن حصے کو نظرانداز کردیا ہوگا۔

یہ ایک ایسا حصہ ہے جو انسانوں کو دیگر جانوروں سے الگ اور ممتاز کرتا ہے کیونکہ اس کی وجہ سے آپ دونوں ٹانگوں پر چل اور دوڑ پاتے ہیں۔

جی ہاں ہم آپ کے پیروں کی بات کررہے ہیں اور جب آپ اپنے کسی ایک پیر کو دیکھتے ہیں تو بھی آپ نے کبھی اس محراب (transverse arch) پر زیادہ توجہ نہیں دی ہوگی جو پورے پیر میں موجود ہوتی ہے۔

اب ایک نئی تحقیق میں پہلی بار بتایا گیا ہے کہ کس طرح ہمارے پیر آپ کو چلنے اور اچھی طرح دوڑنے میں مدد دیتے ہیں۔

امریکا کی یالے یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ درحقیقت پیروں میں 2 چیزیں انسانوں کو دیگر جانداروں سے منفرد بناتی ہیں، ایک تو ہمارے پیر کی محراب نما شکل جبکہ دیگر جانداروں کے پیر سپاٹ ہوتے ہیں۔

یہ محراب ہڈی سے بنتی ہے مگر اسے پیر کے دیگر عناصر جیسے رباط (لیگامنٹ)، نسجیی غلاف اور دیگر لچکدار ٹشوز بھی سہارا دیتے ہیں۔

دوسری چیز یہ ہے کہ ہمارے پیر دیگر جانداروں کے مقابلے میں زیادہ سخت ہوتے ہیں اور وہ چلتے ہوئے ہر قدم میں زمین پر زیادہ طاقت کو محسوس کرتے ہیں، یہ طاقت ہمارے جسمانی وزن سے کئی گنا زیادہ ہوسکتی ہے مگر اس کے باوجود ہم انسانی پَیر کو مڑتے ہوئے بہت کم ہی دیکھتے ہیں۔

اس کے مقابلے میں دیگر جانداروں کے پَیر درمیان سے اکثر بہت زیادہ مڑ جاتے ہیں مگر ہمارے پیر زمین پر قدم رکھنے پر توانائی کو جذب کرکے بہت زیادہ طاقت کے اثرات سے ہمارے جسموں کو بچاتے ہیں جبکہ وہ توانائی کو ذخیرہ بھی کرلیتے ہیں، جس کو ہم بعد میں استعمال کرپاتے ہیں۔

ماضی میں اس بات کا جائزہ لیا گیا تھا کہ انسانی پَیر اتنے سخت ہونے کے باوجود موثر طریقے سے چلنے اور دوڑنے میں کیسے مدد دیتے ہیں مگر اس کی وجہ واضح طور پر سامنے نہیں آسکی تھی۔

اس نئی تحقیق میں transverse arch پر توجہ مرکوز کی گئی اور انہوں نے دریافت کیا کہ یہی عنصر پَیر کی 40 فیصد سے زیادہ سختی کا باعث بنتا ہے جس کے بعد longitudinal arch کا نمبر آتا ہے جو 23 فیصد تک یہ کام کرتا ہے۔

محققین نے انسانوں کی طرح چلنے کے ارتقا کے علم کو بھی استعمال کیا اور ان کا کہنا تھا کہ فوسلز میں اس نئی تیکنک کو استعمال کرکے ہم نے یہ جاننا چاہا کہ یہ محراب کس طرح بننا شروع ہوئی۔

مختلف شواہد سے عندیہ ملتا ہے کہ ہمارے آباﺅ اجداد نے 2 پیروں پر پہلی بار چلنا 60 لاکھ سال قبل شروع کیا تھا یا اس سے بھی پہلے، مگر موجودہ انسانوں جیسی ایڑی کے نمونے 36 لاکھ سال پہلے کے نہیں، یعنی یہ محراب 34 لاکھ سال قبل انسانوں میں نمودار ہوئی، مگر اس خیال کو ثابت کرنے کے لیے مزید فوسلز کی ضرورت ہے۔

اس تحقیق سے مصنوعی اعضا اور روبوٹک ڈیزائن کی تیاری میں اہم پیشرفت کی توقع ہے اور سائنسدانوں کے خیال میں اس سے ایسے مصنوعی پَیر بنانے میں مدد مل سکے گی جو انسانی پیروں سے بہت زیادہ ملتے جلتے ہوں گے۔

آخر میرے ہاتھوں اور پیروں میں سوئیاں چبھنے کا احساس کیوں ہوتا ہے؟

پیروں کا سوجنا کن امراض کی علامت؟

ایڑی میں اکثر درد رہتا ہے تو اس کی وجہ جان لیں