اس تحقیق میں ابتدائی مریضوں کی جانچ پڑتال سے اس وائرس کے بارے میں اشارے ملتے ہیں کہ یہ کیسا ہے اور کون اس سے زیادہ متاثر نہیں ہوتا۔
یہ تحقیق دیگر کورونا وائرسز جیسے 'سارس' سے موازنے کے لیے ایک اور نکتہ بھی فراہم کرتا ہے۔
امریکا کی وینڈربلیٹ یونیورسٹی اسکول آف میڈیسین کی ایک تحقیق کے مطابق 2003 میں چین سے پھیلنے والے سارس کے شکار افراد میں بالغوں کے مقابلے میں بچوں کی تعداد ڈرامائی حد تک کم تھی اور 13 سال سے کم عمر بچوں میں اس کی شدید علامات بھی زیادہ عمر کے مریضوں کے مقابلے میں کم رپورٹ ہوئی تھیں۔
اور ایسا ممکن ہے کیونکہ بائیولوجی کے اصولوں کے مطابق بالغ افراد کے مقابلے میں بچوں میں نوول کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کا امکان کم ہوسکتا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ بچوں کے خلیات اس وائرس کے لیے زیادہ اچھے میزبان نہیں ہوتے اور کورونا وائرس کے لیے اپنی نقل بنانے اور دوسرے افراد میں منتقل ہونا مشکل ہوجاتا ہے۔
محققین نے مزید بتایا کہ بچے بھی اس وائرس سے متاثر ہوسکتے ہیں مگر ان میں علامات بالغ افراد کے مقابلے میں زیادہ شدید نہ ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے انہیں طبی نگہداشت کی کم ضرورت ہوسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ رویہ وائرس والے دیگر امراض میں بھی نظر آتا ہے کیونکہ ارتقائی طور پر ہم اس طرح کے حالات سے متاثر ہونے کے لیے ڈیزائن ہوئے ہیں اور بڑے ہونے پر مدافعتی نظام زیادہ پھیلتا ہے۔
مثال کے طور پر امریکا میں سیزنل فلو کے دوران متعدد بچے انفلوائنزا وائرس سے متاثر ہوتے ہیں مگر اس مرض سے بالغ افراد کے مقابلے میں بچوں کی اموات بہت کم ہوتی ہیں۔
طبی ماہرین کے خیال میں بچوں کا ماحول ممکنہ طور پر اس حوالے سے مدد فراہم کرتا ہے، یعنی بچوں کو بالغ افراد کے مقابلے میں عام کورونا وائرسز کا زیادہ سامنا ہوسکتا ہے، جس سے ان کے اندر ایک مخصوص قسم کی مدافعتی طاقت پیدا ہوسکتی ہے مگر وہ زندگی بھر ساتھ نہیں رہتی۔
ان کا کہنا تھا کہ اکثر بچے بالغ افراد کے مقابلے میں زیادہ صحت مند ہوتے ہیں اور بیماری سے جلد صحت یاب ہوجاتے ہیں جبکہ ویکسینیشن کا عمل بھی بچوں میں اپ ٹو ڈیٹ ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ زندگی کے معمولات لوگوں کو صحت مند رکھنے میں مدد دیتے ہیں، جیسے ہاتھوں کی اچھی صفائی مددگار ہوتی ہے، صحت بخش غذا کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے، چاہے وائرس کوئی بھی ہو، مگر اچھے معمولات صحت مند رکھ سکتے ہیں۔