صحافی عزیز میمن کے مبینہ قتل کی تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی تشکیل
سندھ حکومت نے وزیراعلیٰ کی منظوری کے بعد نوشہروفیروز میں ایک نہر میں مردہ پائے گئے صحافی عزیز میمن کے مبینہ قتل کی تحقیقات کے لیے 9 رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی۔
سندھ حکومت کی جانب سے جاری نوٹی فکیشن کے مطابق تین ہفتے قبل جاں بحق ہونے والے صحافی عزیز میمن کی موت کی تفتیش کے لیے جے آئی ٹی بنادی گئی ہے جو 15 روز کے اندر اپنی رپورٹ جمع کرائے گی۔
جے آئی ٹی کو کسی بھی ایجنسی یا ادارے سے معاونت حاصل کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
مزید پڑھیں:سندھ کے ضلع نوشہروفیروز میں صحافی کی پراسرار ہلاکت
صوبائی حکومت کی جانب سے بنائی گئی 9 رکنی جے آئی ٹی کی سربراہی ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس حیدر آباد رینج کریں گے اور ٹیم میں سینئر سپرینٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) ضلع نوشہروفیروز اور شہید بینظیر آباد کے ساتھ ساتھ انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کا نمائندہ بھی شامل ہوگا جس کا عہدہ ڈپٹی ڈائریکٹر سے کم نہیں ہوگا۔
جے آئی ٹی کے اراکین میں اسپیشل برانچ کا ایک نمائندہ بھی شامل ہوگا۔
دیگر اراکین میں لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز جامشورو کے کلیہ بیسک میڈیکل سائنسز کے ڈین ڈاکٹر اکرام الدین عجان، چیئرمین شعبہ فارنزک سائنسز اینڈ ٹوکسیکالوجی محمد اکبر قاضی، سینئر ریسرچ افسر انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بیالوجیکل سائنسز یونیورسٹی آف کراچی شکیل احمد اورلیاقت یونیورسٹی ہسپتال حیدرآباد کے پولیس سرجن ڈاکٹر بنسدھر بھی شامل ہوں گے۔
آئی جی سندھ مشتاق مہر کی سفارشات پر تشکیل دی گئی جے آئی ٹی کو ‘صحافی کی موت کی اصل وجہ معلوم کرنے اور صحافی کے بھائی کے خدشات کو دور کرنے کی تفتیش کی ہدایت کی گئی ہے’۔
واضح رہے کہ سندھی نیوز چینل ’کے ٹی این‘ اور اخبار ’کاوش‘ سے وابستہ سینئر صحافی عزیز میمن کی لاش اتوار کی سہ پہر نوشہرو فیروز کے نواحی شہر محراب پور کی ایک نہر سے برآمد ہوئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں:صحافی کا قتل: اسپیکر قومی اسمبلی کی سربراہی میں جے آئی ٹی کا مطالبہ
عزیز میمن کے بھائی حافظ میمن نے مقامی میڈیا سے بات چیت کے دوران بتایا کہ ان کے بھائی صبح اپنے کیمرامین اویس قریشی کے ساتھ محراب پور کے قریبی گاؤں میں رپورٹنگ کا کہہ کر گھر سے نکلے تھے تاہم سہ پہر کو ان کی لاش کی اطلاع ملی۔
محراب پور پولیس تھانے کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) عظیم راجپر نے مقامی میڈیا کو تصدیق کی کہ صحافی عزیز میمن کی لاش ایک نہر سے برآمد ہوئی۔
ایس ایچ او کا کہنا تھا کہ عزیز میمن کے گلے میں الیکٹرک تار تھی، تاہم فوری طور پر اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ ان کی ہلاکت کیسے ہوئی۔
وزیر اعلیٰ سندھ نےواقعے کا نوٹس لیتے ہوئے نوشہروفیروز پولیس سے جلد رپورٹ طلب کیا تھا اور صحافی کے قاتلوں کو فوری طور پر گرفتار کرنے کا حکم دیا تھا۔
رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ 56 سالہ صحافی کو 30 سالہ کیریئر میں اکثر جان سے مارنے کی دھمکیاں موصول ہوتی رہی تھیں۔
گزشتہ برس انہیں مبینہ طور پر ایک رکن قومی اسمبلی کی جانب سے اسی طرح کی دھمکیاں کی دی گئی تھیں جس کے بعد وہ اپنے آبائی علاقے سے اسلام آباد منتقل ہوگئے تھے جہاں کچھ عرصہ مقیم رہے۔
نوشہرو فیروز سے عزیز میمن کی لاش ملنے کے بعد قومی اسمبلی میں رپورٹرز نے احتجاج کرتے ہوئے واک آؤٹ کیا تھا اور اسپیکر اسد قیصر کی سربراہی میں مشرکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دینے کا مطالبہ کیا تھا۔
مزید پڑھیں:صحافی عزیز میمن کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے، اسپیکر قومی اسمبلی
بعد ازاں اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے وزیرداخلہ بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ کو صحافی کے مبینہ قتل کی شفاف تحقیقات کی ہدایت کی تھی۔
وزیرداخلہ برگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ کا کہنا تھا کہ صحافی عزیز میمن کا قتل انتہائی شرم ناک اور قابل مذمت فعل ہے، قتل کی شفاف اور غیر جانب دارانہ تحقیقات کو یقینی بنایا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ عزیز میمن کے قتل میں ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا جائے گا۔
اعجاز شاہ نے کہا کہ موجودہ حکومت آزادی صحافت پر یقین رکھتی ہے اور صحافی برادری کو فرائض سر انجام دینے کے لیے ہر ممکن تحفظ فراہم کیا جائے گا۔