مائی بھاگی: جس کے بھاگ نہ جانے کیا ہوئے!
مائی بھاگی: جس کے بھاگ نہ جانے کیا ہوئے!
تحریر و تصاویر: ابوبکر شیخ
ہر جاندار وجود اپنے اندر کُل کائنات رکھتا ہے، جس میں اس کے اپنے آسمان، صحرا و دریا، صبح و شام اور غم و شادمانیاں گھر کیے ہوئے ہیں۔ ضروری نہیں کہ جب کوئی ہم سے مسکرا کر ملے تو اس کے اندر بسے جہان بھی مسکان کی کَلی کِھلی ہو لہٰذا ہر حیوان ناطق ایک وجود رکھتے ہوئے بھی 2 دنیاؤں میں جیتا ہے۔ ایک وہ دنیا جس میں وہ چلتا پھرتا، ہنستا بولتا نظر آتا ہے اور ایک وہ دنیا جو اس کے اندر بسی ہوئی ہے۔
جاڑے کی لمبی راتیں چھوٹی ہونے لگی تھیں اور چھوٹے دن طویل ہونے لگے تھے۔ سورج جنوب کا سفر ختم کرکے واپس شمال کی طرف لوٹ رہا تھا۔ مگر رات کے وجود میں اب بھی ٹھنڈ بستی تھی۔ دھان کٹ چکی تھی اور ان زمینوں میں کہیں کہیں گیہوں کی فصل کھڑی تھی لیکن ابھی سونے جیسے رنگ میں ڈھلنے کے لیے وقت درکار تھا۔
کہیں کہیں سرسوں کی دُور تک پھیلی فصلیں تھیں جن میں تاحدِ نگاہ پیلے پھول کِھلتے تھے۔ میرے ساتھ میٹھے پانی کی نہر چلتی جس میں بس نام کا پانی تھا البتہ کناروں پر کہیں کہیں سرکنڈے اپنی قدآوری کے غرور میں مکھن جیسے سفید سروں کے ساتھ کھڑے تھے کہ ان کے ہونے سے ہی نہروں کے کناروں پر خوبصورتی آتی ہے۔
کیکر کے درختوں پر گہرے زرد رنگ کے پھول کھلتے تھے۔ کہیں کہیں پیلو کا درخت بھی نظر آجاتا جس پر اس کا میوہ لگنا شروع ہوا تھا۔ یوں لگتا ہے جیسے بہار کی آمد پر فطرت پُرتپاک استقبال میں جُٹی ہوئی ہے۔
میں مائی بھاگی سے ملنے اس کے گاؤں جارہا تھا۔ مائی بھاگی کو میں نے ماہی گیروں کے جلسوں اور پروگراموں میں نعرے لگاتے ہوئے دیکھا تھا۔ ماہی گیروں کی تنظیم کے لانگ مارچ ہوں یا ریلیاں، احتجاجی مظاہرہ حیدرآباد میں ہو، سانگھڑ میں یا پھر اسلام آباد کی شاہراہوں پر، میں نے انہیں ہمیشہ ایک متحرک کردار میں دیکھا۔
ایک، 2 پروگراموں میں جب انقلابی گیت کی دھنیں حاضرین کا خون گرمانے لگتیں تب انہیں محوِ رقص بھی دیکھا۔ مگر میں حیران نہیں تھا کیونکہ جنوبی سندھ کے جس سمندری کنارے پر بسے گاؤں سے وہ آئی تھی وہاں پردہ بہت کم ہے یا نہ ہونے کے برابر ہے، اور برقعے کا تو دُور دُور تک تصور بھی نہیں ہے بلکہ کراچی سے بدین تک سمندری کنارے پر صدیوں سے مقامی لوگ آباد ہیں، وہاں عورت آزاد ہے اور مرد کے شانہ بشانہ کام کرتی ہے۔ اسے اگر مادرانہ معاشرہ کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔
اگر آپ ساحلی پٹی میں کسی راستے پر کہیں جا رہے ہیں اور سامنے سے عورتیں آرہی ہیں تو ایسے میں جب آپ ان کے نزدیک پہنچیں گے تو وہ عورتیں راستے کے کنارے پر اپنے چہرے کا رخ موڑ کر کھڑی ہوجائیں گی۔ وہ آپ کے گزر جانے کا انتظار کریں گی اور اس کے بعد اپنا راستہ لیں گی۔ صدیوں سے آباد یہ معاشرہ عورتوں پر بھروسہ کرتا ہے۔
مائی بھاگی کی زندگی کا بیشتر عرصہ انہی راہوں پر چلتے گزرا ہے۔ جہاں صبح کی ابتدا دودھ کے آنے والے سے نہیں مرغے کی اذان سے ہوتی ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ کئی مرغوں کی بانگوں سے ہوتی ہے۔ جہاں سورج ڈھلنے سے پہلے روٹی اس لیے کھائی جاتی ہے کہ اندھیرا اور مچھر ان کو سکون سے روٹی کھانے نہیں دیتے۔ جہاں منرل واٹر کا تصور تک نہیں، اور وہاں پینے کا ’زبردست‘ پانی گاؤں کے قریب پانی کے تالاب سے لایا جاتا ہے کہ تالاب میں جب پانی چند دنوں کے لیے ٹھہرتا ہے تو مٹی نیچے چلی جاتی ہے اور یوں پانی ’صاف‘ اور پینے کے لیے ’شاندار‘ اور ’زبردست‘ بن جاتا ہے۔
میں نے ایک بار مائی بھاگی کو اسلام آباد میں ماہی گیروں کے منعقدہ احتجاجی مظاہرے کے موقعے پر دیکھا تھا۔ انہوں نے ایشیائی ترقیاتی بینک اور عالمی بینک کے دفاتر کے سامنے دھرنا دیا تھا۔ میں راستے کے کنارے کھڑے ہوکر سب دیکھ رہا تھا۔ ماحول میں تناؤ تھا۔ پولیس کی ایک بھاری نفری الرٹ کھڑی تھی۔
یوں لگتا تھا کہ دھرنے کا مقام کبھی بھی میدانِ جنگ میں بدل سکتا تھا۔ بہت کم لوگوں کو میں نے پُرسکون حالت میں دیکھا، جن میں سے ایک اس زمانے کے ایکشن ایڈ کے کامریڈ خادم حسین تھے۔ اس قسم کی صورتحال سے 2 اقسام کے لوگ بالکل بھی نہیں گھبراتے، پہلے وہ جو دیوانے ہوں اور دوسرے وہ جو جس خیال یا مقصد کی چھاؤں میں کھڑے ہوتے ہیں، وہ اتنے گھنے اور پائیدار ہوتے ہیں کہ پریشانی کی دھوپ ان تک نہیں پہنچتی۔ مجھے نہیں پتا اس دن مائی بھاگی کن میں سے تھی۔
پھر ماہی گیروں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کچھ مزید لانگ مارچ ہوئے ان میں بھی میں نے مائی بھاگی کو سرگرم دیکھا۔ پھر جیسے وقت کے تھان کھلتے اور لپیٹے جاتے ہیں اور کچھ لوگ اس کا شکار ہوجاتے ہیں، مائی بھاگی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہوا تھا۔ وقت کے بے رحم تھان نے اسے لپیٹ دیا۔ اس عمل سے اس انسان کو کیسی کیفیات سے گزرنا پڑتا ہے انہیں دیکھنے کے لیے میں نے یہ سفر اختیار کیا تھا۔
میں جب مائی بھاگی کے گاؤں پہنچا تو سورج سر پر آگیا تھا مگر آسمان نیلا تھا۔ میرے مغرب اور مشرق میں 2 جھیلیں تھیں۔ مشرق کی طرف موجود جھیل نے خود کو باقی رکھا ہوا ہے مگر مغرب کی طرف موجود جھیل سمندر کے نمک اور چونے سے بھرے پانی کی وجہ سے آخری ہچکیاں لے رہی تھی۔
میرے اوپر سے ایک تیز زناٹے کے ساتھ پرندوں کا غول گزرا کہ سرد علاقوں سے آنے والے یہ پرندے اگر اتنی رفتار نہ رکھیں تو دُور دراز علاقوں تک کا سفر شاید ممکن ہی نہ ہوسکے۔ فطرت کا یہی قانون ہے کہ اگر آپ وقت اور حالات کے مطابق اپنے اندر تبدیلیاں پیدا نہیں کریں گے تو آپ کو مفقود ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔
سوکھی خاردار جھاڑیوں کی باڑ تھی اور اس باڑ کے اندر مائی بھاگی کا گھر تھا۔ گھر کے آگے آنگن تھا۔ آنگن کے جنوبی کنارے پر میٹھے پانی کی نہر سے نکلنے والی پانی کی نالی تھی۔ اب چونکہ نہر میں پانی نہیں تھا اس لیے نالی بھی سوکھی ہوئی تھی۔ نالی کے شمالی کنارے پر دیوی کا شاندار درخت تھا۔ اس درخت کی گھنی چھاؤں کے نیچے چولہے میں لکڑیاں جلتی تھیں، آگ اور دھوئیں کی تپش پر توے پر سُرخ چاولوں کی روٹی پکتی تھی اور مائی بھاگی دوسری روٹی کے لیے آٹا گوندھتی تھی۔ کہتے ہیں کہ اگر بھوک ہو تو بغیر کسی سالن کے آپ سرخ چاولوں کی لذیذ و خستہ گرم گرم روٹی ایسے ہی کھا سکتے ہیں۔
مائی بھاگی اپنے 5 بھائیوں اور 2 بہنوں میں سب سے چھوٹی تھیں۔ چھوٹا ہونے کے ناطے انہیں یقیناً لاڈ پیار بھی ملا ہوگا۔ بھاگی کے والد زمیندار تھے، ان کے پاس 20 ایکڑ پر محیط زرعی زمین تھی۔ زمین پر کام کرنے کے لیے انہوں نے کئی ملازمین و ہاری رکھے ہوئے تھے۔ اسی کے ساتھ 4 بیلوں کے جوڑے تھے۔ کسی زمیندار کے پاس 4 ہل ہونا ایک بڑی بات ہوا کرتی تھی۔
مائی بھاگی نے اپنے گزرے دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہم خوشحال تھے، ہم سب اپنی چھوٹی سی دنیا میں بہت خوش تھے۔ خوراک کی کمی نہیں تھی۔ دودھ مکھن دستیاب تھا۔ گرمیوں کے موسم میں مچھلی بہت ہوتی تھی۔ ہمارے گاؤں کے دونوں طرف موجود جھیلوں اور شہر سے آنے والی میٹھے پانی کی نہر میں بھی وافر مقدار میں مچھلیاں ہوا کرتی تھیں۔ بارشوں کے بعد جب جاڑے کا موسم آتا تو پرندوں کی آمد کا سلسلہ بھی شروع ہوجاتا، ساتھ میں یہاں لگنے والے روایتی میلے کا موسم بھی آجاتا جس میں ہمارے وہ رشتہ دار بھی آیا کرتے تھے جو یہاں سے نقل مکانی کرکے بدین شہر چلے گئے تھے۔ ہفتہ بھر لوگوں کی آمد کا سلسلہ بندھا رہتا تھا۔ ان دنوں سردیاں اس طرح نہیں پڑتی تھیں۔ اب تو بس پتا لگتا ہے کہ سردیوں کا موسم آیا اور چلا گیا۔ تب ایسا نہیں تھا۔ موسمِ سرما 5 ماہ پر محیط ہوا کرتا تھا۔ بیچ کے 2 مہینوں میں تو اس قدر سردی پڑتی تھی کہ مٹکوں میں رکھا پانی بھی جم جاتا کرتا تھا‘۔
ماضی کو اچھا و خوش حال بتانا انسانی سرشت ہے۔ خاص کر بچپن کے دن۔ ظاہر ہے کہ ان وقتوں میں ہر انسان معاشی و معاشرتی فکروں سے مکمل طور پر آزاد ہوتا ہے۔ کھیل کود اور بے فکری سے گزارے گئے خوشیوں بھرے شب و روز کا سحر تاحیات قائم رہتا ہے۔
مائی بھاگی کے شوہر نے سگریٹ جلائی اور نیلا دھواں اُگلا۔
’آپ نے ساجن سے اپنی رضا خوشی کے ساتھ شادی کی تھی؟‘
’ساجن‘ بھاگی کے میاں کا نام ہے جو خود ایک سماجی کارکن ہیں۔
میرے اس سوال پر، بھاگی نے ساجن کی طرف دیکھا اور ساجن اپنی عادت کے مطابق ہلکا سا مسکرائے۔
’ہاں بالکل، ہماری شادی آپسی رضامندی اور خوشی سے ہوئی تھی۔ اس زمانے میں یہ ہمارے گاؤں کا مشہور پہلوان تھا اور ملاکھڑوں میں زور آزمائی کرتا تھا۔ جب ہمارے رشتہ داروں نے ہمارے رشتے کی بات کی تو میں نے خوشی خوشی ہاں کردی۔ شروع شروع میں تو بڑی سخت طبیعت کے تھے۔ مجھے ڈر بھی بڑا لگتا تھا لیکن پھر جب غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ سماجی کارکن کے طور پر کام کرنے لگا تو دھیرے دھیرے طبیعت میں نرمی اتر آئی۔ میں اس گاؤں کی پہلی عورت تھی جس نے گاؤں سے نکل کر سماجی کارکن کے طور پر کام کیا۔ میں ماہی گیروں کی تنظیم پاکستان فشر فوک فورم سے وابستہ رہی۔ میرے خیال میں 2002ء سے۔‘
’تو کیا فائدہ ہوا اس سوشل ورک کی دنیا میں جانے سے؟‘، میں نے پوچھا۔
’ایک سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ یہاں بدین اور ٹھٹہ کی ساحلی پٹی پر ٹھیکیداری نظام تھا ان کو ہماری چلائی ہوئی تحریک نے ختم کروایا۔ ساحلی پٹی کے لوگوں کو سمجھایا کہ اپنے مسائل پر بات کریں۔ اس گاؤں سے نکل کر بڑے بڑے شہروں تک گئے اور پروگرام کیے۔ نئے نئے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ وہ جو ایک جھجھک تھی وہ ختم ہوئی۔ پھر اسلام آباد یا لاہور کبھی نہیں دیکھ سکتے تھے وہ دیکھے۔ گھومے پھرے۔ ہم جب جلسوں میں لوگوں کے ساتھ ہوتے تھے تو ایک طاقت آجاتی تھی۔ زور و شور سے نعرے لگانا۔ لاؤڈ (اسپیکر) پر بجتے گیتوں پر جوش میں آکر ناچتے تھے۔ مطلب سب زبردست تھا۔‘
’آپ کو کیوں لگا کہ اپنا سارا کام کاج چھوڑ کر سماجی خدمت کے لیے نکلا جائے؟‘، میں نے ساجن سے پوچھا۔
’ناانصافی سے مجھے سخت نفرت ہے۔ میں غلط بات اور کام کو برداشت نہیں کرسکتا۔ ان وقتوں میں یہاں سمندری مچھلی اور جھینگے کے کاروبار پر ٹھیکیداری نظام تھوپا ہوا تھا۔ ٹھیکیدار جو چاہتا وہ ریٹ دیتا۔ یہ ایک قسم کا استحصال تھا جو ماہی گیروں کے ساتھ ہو رہا تھا۔ مگر ہم کچھ کر نہیں سکتے تھے۔ کمزور تھے۔ پھر ایک دن فشر فوک والے آئے اور ہم ان کے ساتھ ہو لیے۔ تحریک چلی اور عام ماہی گیر کو اس نظام سے چھٹکارا ملا۔ پھر رابطے ہوگئے تو ہم بھی چل پڑے ان کے ساتھ۔‘
’سماج کے لیے کام کرنے سے پہلے آپ کیا کرتے تھے؟‘
’میرے پاس کشتی تھی جس پر سوار ہوکر میں جھینگے اور مچھلی کا شکار کرتا تھا۔ مچھلی کے جال بھی ہاتھ سے بناتا تھا۔ گزارا اچھا ہوجاتا تھا۔‘
’اور اب کیا کرتے ہیں؟‘ میرے اس سوال پر، کچھ دیر کے لیے خاموشی چھائی رہی۔ خاموشی میں فقط مکھیوں کی بھوں بھوں کی آواز سنائی دیتی یا اُس سیاہ بھنورے کے پروں کی آواز آتی تھی جس کے سر پر گہرے رنگ کا پیلا ٹیکا لگا ہوا تھا، یہ اکثر دیہاتوں میں گرمیوں کے دنوں میں اڑتے دکھائی دیتا ہے۔ اس کی آواز خاموشی کو مزید گہرا کردیتی ہے۔
’اب کم ہی سمجھ میں آتا ہے کہ کیا کروں۔ ایک تو سمندر میں مچھلی یا جھینگا بھی نہیں رہا بلکہ میری تو کشتی بھی اب نہیں رہی۔ ٹوٹ پھوٹ گئی۔ جال اس لیے نہیں بُن سکتا کہ نظر کمزور ہوگئی ہے۔ اپنی جو ایک 2 ایکڑ زمین ہے وہاں پانی نہیں آتا سو کاشتکاری کہاں سے ہوسکتی ہے۔ بس ہر سال گرمیوں کے موسم میں جب جنوب مغرب کی تیز ہوائیں چلتی ہیں اور سمندر کا پانی دوڑتا ہمارے گاؤں کی زمینوں کو جھیل بنا دیتا ہے تو ان میں سے جھینگے پکڑ کر گزارا کرلیتے ہیں۔‘
ساجن نے کش لیا جیسے زندگی کی تلخیوں کو ایک ہی کش میں نگل لے گا۔ یہ تصور تو اچھا ہے، کاش ایسا ہو بھی سکتا۔ مگر یہ ممکن نہیں ہے۔
مائی بھاگی اپنے وقتوں میں سوئی دھاگے کے ہنر میں باکمال تھیں۔ خاص کر رلیاں بنانے کی وہ ماہرہ تصور کی جاتی ہیں۔ مجھے بھی بہت ساری رلیاں دکھائیں جو بڑی خوبصورت تھیں۔ یہ ایک زبردست فن ہے، بھلا رنگ برنگے کپڑوں کے ٹکڑوں کو اپنی من مرضی کے مطابق خوبصورتی اور صفائی سے ٹانک کر جوڑنا کسی عمدہ فن سے کم ہے کیا۔
کپڑے کے ٹکڑے کی سائز 2 بائی 2 سے زیادہ نہیں ہوتی۔ آپ اندازہ کریں کہ ان کے جڑنے کے بعد 4 بائے 6 فٹ کی جو چادر بنے گی اس رنگا رنگ خوبصورت تخلیق کا تصور ہی کتنا خوشگوار لگتا ہے۔ یہ چادر رلی کا اوپر فرنٹ فیس ہوگا اور رلی بنانے کا دوسرا مرحلہ اس کی نچلی چادر کی تیاری پر مشتمل ہے جس کے لیے سادہ کپڑا استعمال کیا جاتا ہے۔ پھر ان دونوں کے حصوں کے بیچ کپڑوں کے بڑے بڑے ٹکڑوں کی تہیں سِی دی جاتی ہیں۔ رلی پتلی چاہیے یا موٹی، اس کا دارومدار ان کپڑوں کی تہوں پر ہوتا ہے۔ ایک اچھی رلی بنانے کے لیے کم سے کم 10 سے 15 دن لگ جاتے ہیں۔ یہ بڑا ہی محنت اور محبت طلب کام ہے۔
میں دیکھنا چاہتا تھا کہ مائی بھاگی رلی کیسے بناتی ہیں۔ انہوں نے اپنی وہ پوٹلی کھولی جس میں رلی بنانے کا سامان، یعنی سوئی، دھاگہ، قینچی اور رنگین کپڑوں کے ٹکڑے موجود تھے۔ انہوں نے بڑے پیار سے سوئی کو انگلیوں میں پکڑا اور دھاگے کو سوئی میں ڈالنے کی کوشش کی۔ میں نے دیکھا کہ ان کے ہاتھوں میں ہلکی لرزش تھی اور باریک دھاگے اور سوئی کے فاصلے کا اندازہ نہ ہاتھ لگا پا رہے تھے اور نہ آنکھیں ساتھ دینے پر آمادہ تھیں۔ مائی بھاگی کی پسینے سے تر پیشانی پر شکنیں پیدا ہونے لگیں کہ کوئی نہیں چاہے گا کہ جس ہنر کا وہ کل بادشاہ تھا اس سے آج محروم ہوجائے۔ آخرکار 6 سے 7 بار کوشش کرنے کے بعد جب سوئی میں دھاگہ پڑ گیا تو ایک طمانیت سی نظر آئی۔ وہ رلی کے ان رنگین تکڑوں کو سینے لگیں۔ کسی کسی پل وہ آنکھوں میں آئے ہوئے پانی کو بے خیالی میں ہاتھ سے پونچھ لیتی تھیں۔
مائی بھاگی نے بتایا کہ ان کی واحد اولاد ان کی بیٹی ہے جس کا بیاہ انہوں نے 2000ء میں شہر میں مقیم اپنے رشتہ داروں میں کرادیا تھا۔ دوسری اولاد کی آرزو رہی جو پوری نہ ہوسکی اور یہ دونوں رب کی رضا میں راضی رہے۔
’آپ 17 برس تک اس سماجی کاموں سے وابستہ رہے جس سے ممکن ہے کہ علاقے کو کچھ فائدہ بھی ہوا ہو۔ مگر اب کیا؟‘، میں نے سوال کیا۔
’ہم سے کسی نے زبردستی کام نہیں لیا، یہ ہمارے دل کا فیصلہ تھا۔ ہم اپنی خوشی سے اس شعبے کی طرف گئے اس لیے کسی سے شکایت بھی نہیں ہے۔ بس جتنا کرسکتے تھے کیا۔ اب ہمارے معاشی حالات کا سب کو پتا ہے۔ ہم تو اپنی ساری کشتیاں جلاکر ایک دیوانگی میں نکلے تھے لیکن آج اگر گزرے زمانے کے ساتھیوں سے کوئی حال پوچھنے تک نہ آئے تو کیا کیجیے،‘ یہ دونوں میان بیوی کا جواب تھا۔
وہ مایوس تھے لیکن محسوس کروانا نہیں چاہتے تھے لیکن مایوسی اگر روح میں گھر کیے ہوئے ہو تو اسے چہرے کے جھوٹے تاثرات سے چھپایا نہیں جاسکتا، خاص کر تب جب عمر تیزی سے ڈھل رہی ہو۔
آپ کتنی بھی کوشش کریں، جتنے بھی گھوڑے دوڑا لیجیے، وقت آپ کی آنکھوں سے دھیرے دھیرے نور چھین لیتا ہے اور ہڈیوں کے جوڑوں میں درد انڈیل دیتا ہے۔ مضبوط سے مضبوط ہاتھوں میں لرزش بھر دیتا ہے۔ دیوانگی اچھی چیز ہے کہ یہ دنیا اس دیوانگی سے ہی تعمیر ہوپائی ہے جس دیوانگی میں راستہ اور منزل طے ہوتی ہے۔ دیوانگی کے بغیر منزل کا حصول ایک دیوانے کا خواب ہے۔
مائی بھاگی کے پاس اب فقط یادیں ہی بچی ہیں کیونکہ وہ دن تو کب کہ ہوا ہوئے۔ اب نہ ماں رہی نہ باپ، بہن بھائیوں کے اپنے اپنے جہان ہیں۔ وہ زمین جس میں قد آدم دھان اگتی تھی اس کو سمندر نے چاٹ لیا۔ نہ جھیلیں رہیں نہ وہ مچھلیوں کی فراوانی۔ نہ وہ جلسے رہے نہ وہ جلوس۔ نہ وہ ٹریننگ رہیں نہ وہ لانگ مارچ۔ اب تو یہ سب ماضی کی باتیں اور یادیں ہیں۔ ان یادوں کی گٹھڑی باندھے سرہانے رکھ کر کمزور ہوتی نظروں سے اپنے گھر کے کچے آنگن میں بدلتے موسموں کو دیکھتی ہیں۔
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔
ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔