دنیا

پومپیو کی افغانستان میں جرائم کی تحقیقات کیلئےعالمی عدالت کے حکم پر تنقید

امریکا اپنے شہریوں کو نام نہاد عدالت کے احکامات سے بچانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گا، سیکریٹری اسٹیٹ

امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے انٹرنیشنل کریمنل کورٹ (آئی سی سی) کی جانب سے افغانستان میں طالبان، امریکا اور افغان فورسز سے تفتیش کے لیے دیے گئے حکم پر سوال اٹھاتے ہوئے اس کو ناعاقبت اندیش فیصلہ قرار دے دیا۔

امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق مائیک پومپیو نے کہا کہ ‘انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کے اپیل چیمپبر نے طالبان، امریکا اور افغان عہدیداروں کی افغانستان میں مبینہ سرگرمیوں کی تحقیقات کا حکم دیا ہے جو ناقابل احتساب سیاسی ادارے کی جانب سے سانسیں لینے جیسا اقدام ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘امریکا کی جانب سے افغانستان کے حوالے سے تاریخی امن معاہدے پر دستخط کے چند دنوں بعد اس طرح کا حکم بے چینی کا باعث ہے کیونکہ یہ امن کا بہترین موقع ہے’۔

مزید پڑھیں:انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کا افغانستان میں جنگی جرائم کی تحقیقات کا حکم

امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ نے کہا کہ ‘افغان حکومت نے خود انٹرنیشنل کریمنل کورٹ سے اس حوالے سے سماعت نہ کرنے کی اپیل کی تھی لیکن آئی سی سی کے سیاست دانوں کے مقاصد اور ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘امریکا آئی سی سی میں فریق نہیں تھا اور ہم اپنے شہریوں کو اس نام نہاد عدالت کے سے بچانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کریں گے’۔

مائیک پومپیو نے کہا کہ ‘یہ اس بات کی جانب ایک اور اشارہ ہے کہ جب بڑے اداروں کی نگرانی میں ذمہ دار قیادت کا فقدان اور سیاسی سمجھ سے بالاتر ہوتو کیسے حالات پیدا ہوتے ہیں’۔

انہوں نے کہا کہ ‘آئی سی سی نے گزشتہ 3 دہائیوں سے بدترین ناقدین کی جانب سے کی گئی مذمت کی بدقسمتی سے تصدیق کی ہے’۔

خیال رہے کہ انٹرنیشنل کرمنل کورٹ نے افغانستان میں طالبان، افغان اور امریکی فورسز کے ساتھ ساتھ سی آئی اے کی جانب سے کیے گئے انسانیت سوز جنگی جرائم کے خلاف تحقیقات کا حکم دے دیا تھا۔

خبرایجنسی اے پی کے مطابق یہ پہلا موقع ہے کہ امریکی فورسز کے خلاف استغاثہ کو جرائم کی تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے لیکن یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل واشنگٹن انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے عدالتی دائرہ کار کو عرصے سے مسترد کرتے ہوئے تعاون سے انکار کرتا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:ڈونلڈ ٹرمپ کا طالبان رہنما ملا برادر سے ٹیلی فونک رابطہ

یاد رہے کہ 2018 میں اس وقت کے امریکی نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر جان بولٹن نے 9/11 حملوں کی برسی کے موقع پر کہا تھا کہ امریکا اس ناجائز عدالت کی غیرمنصفانہ کارروائی سے اپنے شہریوں اور اسرائیل جیسے اتحادی ممالک کے شہریوں کی حفاظت کے لیے ضرورت پڑنے پر ہر حد تک جا سکتا ہے۔

وائٹ ہاؤس نے کہا تھا کہ امریکی قوانین جہاں تک اجازت دیتے ہیں، ٹرم انتظامیہ ان کے مطابق انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے ججز اور پراسیکیوٹرز کے امریکا میں داخلے پر پابندی عائد کر سکتی ہے اور ان پر امریکی عدالت میں مقدمہ بھی چلایا جا سکتا ہے۔

امن معاہدہ

یاد رہے کہ امریکا-طالبان کے درمیان 29 فروری کو امن معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے جس کے تحت افغانستان سے 14 ماہ میں غیر ملکی فورسز کا انخلا ہونا ہے جبکہ طالبان سے اس کے بدلے سیکیورٹی ضمانت اور کابل انتظامیہ سے مذاکرات کا کہا گیا۔

تاہم قیدیوں کے تبادلے پر تنازع نے سوالات کھڑے کردیے ہیں کہ کابل اور طالبان کے درمیان مذاکرات آگے بڑھ پائیں گے یا نہیں۔

مزید پڑھیں: امریکا-طالبان امن معاہدے پر دستخط کے 2 روز بعد ہی افغانستان میں بم دھماکا

یہ ڈیڈ لاک اس وقت سامنے آیا جب افغان صدر اشرف غنی نے دوحہ میں دستخط ہونے والے معاہدے کے ایک روز بعد ہی ایک قدیویوں کے تبادلے شق کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'طالبان کے 5 ہزار قیدیوں کو رہا کرنے کا کوئی وعدہ نہیں کیا گیا ہے'۔

طالبان نے اشرف غنی کے بیان پر رد عمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ قیدیوں کی رہائی تک بین الافغان مذاکرات نہیں ہوں گے۔

اس بیان کے ایک روز بعد ہی طالبان کے ترجمان نے کابل انتظامیہ کے خلاف حملوں کے آغاز کا اعلان کیا تھا۔

معاہدے کے تحت افغان حکومت کے پاس طالبان کے ایک ہزار قیدیوں کی رہائی کے بدلے کابل انتظامیہ کے پاس موجود طالبان کے 5 ہزار قیدیوں کو رہا ہونا ہے۔

انتخابات سے قبل رولز آف گورننس طے کرنے کی ضرورت ہے، شاہدخاقان عباسی

کورونا وائرس کے خلاف ویکسین کی انسانی آزمائش اگلے ماہ شروع ہوگی

ترک صدر، ایرانی سپریم لیڈر کی بھارت میں مسلمانوں پر تشدد کی مذمت