وجودِ زن سے ہے اقتصادی و سماجی ترقی ممکن
تاریخ تو یاد نہیں البتہ سال 2003ء کی گرمیاں اپنے عروج پر تھیں، ہم ساتویں جماعت کے سیکشن بی کے طلبہ آدھی چھٹی کے بعد اپنے کمرہ جماعت کی طرف دوڑے۔ انگریزی کا پیریڈ تھا لیکن امورِ خانہ داری کے مضمون کی ٹیچر اور شعبہ اسپورٹس کے نگران استاد ہماری کلاس میں داخل ہوئے۔
شعبہ اسپورٹس کے نگران استاد نے ہمیں مخاطب ہو کر کہا کہ کل سب کرکٹ کٹ میں اسکول آئیں، آپ کا سیکشن بی کے ساتھ میچ ہوگا۔ ان کی بات سُن کر ایک طالبہ پوچھتی ہیں کہ سر ہم بھی جائیں گے میچ کھیلنے؟ اتنے میں ہوم اکنامکس کی ٹیچر کہتی ہیں کہ ’لڑکیاں چیکو کا ملک شیک بنائیں گی‘، ان کی بات سن کر لڑکوں نے قہقہے لگا دیے۔ بس یہ تحریر اس قہقہے پر معذرت خواہی کے لیے ہی سمجھی جائے۔
چونکہ پاکستان کی آبادی کا نصف حصہ خواتین پر مشتمل ہے اس لیے سماجی و اقتصادی سطح پر خواتین کا کردار بھی اتنا اہم بن جاتا ہے جتنا کہ مردوں کا۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں خواتین کو سماجی و اقتصادی میدان میں مخصوص کرداروں اور کاموں تک محدود کرلیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے مملکتِ خداداد میں اسکول سے لے کر دفاتر تک، لوکل ٹرانسپورٹ سے لے کر گھر کے اندر عورتوں کے ساتھ ناانصافی اور حوصلہ شکنی عام ہے۔