زلمے خلیل زاد کی ملا برادر سے ملاقات، قیدیوں کے تبادلے سے متعلق گفتگو
افغانستان میں طالبان کے حالیہ حملوں کے بعد امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مصالحتی عمل زلمے خلیل زاد نے عسکریت پسند گروپ کے سیاسی سربراہ ملا عبدالغنی برادر اور ان کی ٹیم سے ملاقات کی اور اگلے اقدامات پر 'واضح طریقے سے بات چیت' کی۔
واضح رہے کہ افغان فورسز پر طالبان کے حالیہ حملوں نے عسکریت پسند گروپ اور امریکا کے درمیان 4 روز قبل ہونے والے امن معاہدے پر شکوک و شبہات پیدا کردیے تھے۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ امریکی صدر کے ساتھ 'تعمیری ٹیلی فونک کال' کے بعد انہوں نے طالبان سربراہ سے بات چیت کی۔
انہوں نے کہا کہ ہم سب نے اتفاق کیا کہ امریکا-طالبان معاہدے کا مقصد افغانستان میں وسیع امن کے لیے راہ ہموار کرنا ہے۔
اپنی ایک ٹوئٹ میں امریکی نمائندہ خصوصی کا یہ بھی کہنا تھا کہ بڑھتا تشدد امن معاہدے کے لیے خطرہ ہے اور اسے فوری کم ہونا چاہیے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ہم نے قیدیوں کے تبادلے سے متعلق بھی بات کی۔
مزید پڑھیں: طالبان حملوں میں افغان فورسز کے اہلکاروں کی ہلاکتوں کے بعد امریکا کا جوابی فضائی حملہ
زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ امریکا قیدیوں کے تبادلے میں سہولت فراہم کرنے لیے پرعزم ہے اور اس کے بارے میں امریکا-طالبان معاہدے اور امریکا-افغان مشترکہ اعلامیے میں اتفاق ہوا تھا۔
مزید برآں انہوں نے کہا کہ ہم دونوں فریقین کی جانب سے نمایاں تعداد کی رہائی کی حمایت کریں گے۔
یہاں یہ واضح رہے کہ زلمے خلیل زاد کا یہ بیان پینٹاگون کی جانب سے افغانستان میں طالبان حملوں کی شدت کم کرنے کے لیے کی گئی کوشش کے بعد سامنے آیا۔
اس بارے میں فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی نے رپورٹ کیا تھا کہ ہفتہ 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن معاہدے پر دستخط کے بعد طالبان کی جانب سے عارضی جنگ بندی ختم کرتے ہوئے افغان فورسز کے خلاف کارروائیوں میں تیزی آگئی تھی جس کے باعث 10 مارچ کو کابل اور طالبان کے درمیان امن معاہدے پر ہونے والے مذاکرات پر بھی خدشات منڈلانے لگے تھے۔
اس تمام صورتحال پر امریکی فوج کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملے کا کہنا تھا کہ گزشتہ 24 سے 48 گھنٹوں میں مختلف طریقوں کے حملے ہوئے اور ان سب کو پیچھے ہٹا دیا گیا۔
انہوں نے سینیٹ کی مسلح سروس کمیٹی کو بتایا کہ معاہدے کے لیے کیا اہم ہے، ہم چوتھے دن میں ہیں اور چیک پوائنٹس وغیرہ پر چھوٹی سطح کے حملے کیے گئے۔
یاد رہے کہ گزشتہ دنوں افغانستان کے وزارت داخلہ کے ترجمان نصرت رحیمی نے کہا تھا کہ طالبان کی جانب سے 24 گھنٹوں میں 15 صوبوں میں 30 حملے کیے گئے جس میں 4 شہری اور 11 افغان اہلکار ہلاک ہوئے جبکہ 17 باغی بھی مارے گئے۔
تاہم مارک ملے کا کہنا تھا کہ طالبان نے شرائط کی ایک مکمل سیریز پر دستخط کیے ہیں، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ حالیہ کشیدگی کے باوجود کچھ نہیں ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: طالبان کا قیدیوں کی رہائی تک بین الافغان مذاکرات نہ کرنے کا اعلان
انہوں نے کہا کہ اہمیت دینے والی بات یہ ہے کہ 34 صوبائی دارالحکومت پر حملے نہیں ہوئے، کابل میں حملے نہیں ہوئے، کوئی ہائی پروفائل حملے نہیں ہوئے، کوئی خودکش بمبار نہیں کوئی گاڑی سے ہونے والے دھماکے نہیں، امریکی اور اتحادی فورسز کے خلاف کوئی حملے نہیں کیے گئے۔
امریکی فوج کے چیئرمین جوائنٹ چیفس کا کہنا تھا کہ اسی طرح ایک مکمل فہرست ہے جو چیزیں ابھی نہیں ہورہی ہیں۔
علاوہ ازیں افغان خبررساں ادارے طلوع نیوز نے رپورٹ کیا کہ نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ کا کہنا تھا کہ افغانستان میں موقع پیدا ہوا ہے جو پائیدار امن کے حصول میں افغانوں کی مدد کرسکتا ہے۔
میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے افغانوں پر زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ افغانوں کے مابین بات چیت کے آغاز اور پائیدار امن کے حصول کا یہ موقع ہے، اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے طالبان کو ان کے وعدوں کا احترام کرنا چاہیے۔
نیٹو کے سیکریٹری جنرل کا کہنا تھا کہ ہمیں تشدد میں کمی اور معاہدے کو نقصان پہنچانے سے بچانے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔
امن معاہدہ
یاد رہے کہ امریکا-طالبان کے درمیان 29 فروری کو امن معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے جس کے تحت افغانستان سے 14 ماہ میں غیر ملکی فورسز کا انخلا ہونا ہے جبکہ طالبان سے اس کے بدلے میں سیکیورٹی ضمانت اور کابل انتظامیہ سے مذاکرات کا کہا گیا۔
تاہم قیدیوں کے تبادلے پر تنازع نے سوالات کھڑے کردیے ہیں کہ کابل اور طالبان کے درمیان مذاکرات آگے بڑھ پائیں گے یا نہیں۔
یہ ڈیڈ لاک اس وقت سامنے آیا جب افغان صدر اشرف غنی نے دوحہ میں دستخط ہونے والے معاہدے کے ایک روز بعد ہی ایک قیدیوں کے تبادلے کی شق کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'طالبان کے 5 ہزار قیدیوں کو رہا کرنے کا کوئی وعدہ نہیں کیا گیا ہے'۔
مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کا طالبان رہنما ملا برادر سے ٹیلی فونک رابطہ
طالبان نے اشرف غنی کے بیان پر رد عمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ قیدیوں کی رہائی تک بین الافغان مذاکرات نہیں ہوں گے۔
اس بیان کے ایک روز بعد ہی طالبان کے ترجمان نے کابل انتظامیہ کے خلاف حملوں کے آغاز کا اعلان کیا تھا۔
معاہدے کے تحت افغان حکومت کے پاس طالبان کے ایک ہزار قیدیوں کی رہائی کے بدلے کابل انتظامیہ کے پاس موجود طالبان کے 5 ہزار قیدیوں کو رہا ہونا ہے۔