قلندروں! کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے! ہوتی ہے یا نہیں؟
اگر لاہور قلندرز کے چاہنے والوں کو کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے خلاف ایک روز پہلے ملنے والی فتح کے بعد کچھ امید اور حوصلہ ملا تھا، یا پھر مخالف ٹیموں کے دلوں میں بین ڈنک اور سمیت پٹیل کی بیٹنگ سے کوئی خوف پیدا ہوا تھا تو اس کی طوالت صرف 24 گھنٹے ہی رہی۔
ایک ٹیم جو 24 گھنٹے پہلے اتنی مضبوط دکھائی دے رہی تھی کہ اگر اس کے سامنے مضبوط ترین ٹیم بھی آجائے تو وہ اسے پچھاڑ دے گی، اسی ٹیم کے کھلاڑی اگلے ہی دن کچھ بھی ٹھیک کرنے کو تیار نہیں تھے۔ ٹاس ضرور لاہور قلندرز نے جیتا اور ٹورنامنٹ کی روایت کے مطابق پہلے فیلڈنگ کا فیصلہ کیا لیکن اس پورے میچ میں یہ واحد مثبت چیز تھی، اس کے بعد لاہور کے لیے کچھ اچھا نہیں رہا۔
کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے خلاف فاتح ٹیم میں 2 تبدیلیاں کی گئیں۔ ایک مجبوری میں اور ایک تبدیلی اب ناگزیر ہوچکی تھی۔ مجبوری میں کی جانے والی تبدیلی شاہین شاہ آفریدی کی تھی، جو انجری کی وجہ سے میچ نہیں کھیل سکے۔ اور جو تبدیلی ناگزیر ہوچکی تھی وہ فخر زمان کی تھی، جو مسلسل خراب کھیلتے رہے، مگر اب انتظامیہ نے کہا ’بس‘ بہت ہوا، اور ان کی جگہ سلمان بٹ کو موقع دیا گیا۔ یہ سوال اپنی جگہ اب بھی موجود ہے کہ کیا سلمان بٹ ٹی20 فارمیٹ کے لیے موزوں کھلاڑی ہیں؟ اس سوال کا جواب لاہور قلندرز کی انتظامیہ کے نزدیک تو ہاں میں ہی لگ رہا ہے، اسی لیے تو ان کو اسکواڈ کا حصہ بنایا تھا۔