مذہبی راہداریاں، کرتار پور اور ہمارا المیہ
پچھلے دنوں نوجوانوں کے لیے کام کرنے والی ایک غیر حکومتی تنظیم کے وسیلے سے جب کرتارپور یاترا کی تو اندازہ ہوا کہ اچھے کام کو حسبِ روایت متنازع اور خراب کرنے میں ہماری مہارتیں ماند نہیں پڑیں۔
اس بات کا بھی احساس ہوا کہ اگر ہمارے تعلیمی اداروں کے بچے اس محفوظ غیر مسلم مقام لے جائے جائیں اور وہاں انہیں انگریزوں، بھارتیوں اور پاکستانیوں کے پھیلائے سکھ مسلم دشمنی کے روایتی اسباق سے ہٹ کر تاریخ بتانے والا کوئی گائیڈ ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ کرتارپور کا دورہ پاکستانی نوجوانوں کے اذہان سے تعصب اور کدورتوں کو پاک کرنے کا سبب بن جائے۔
تعصبوں، تفاخروں اور کدورتوں پر مبنی مائنڈ سیٹ ہی کے خلاف ایک ممتاز اور باوقار آواز بابا نانک کی تھی جو پنج دریائی دھرتی کے سپوت ہی نہ تھے بلکہ گوتم بدھ کی مانند براہمن راج کی کاٹ تھے۔ کرتار پور میں بابا نانک کی قبر اور سمادھ دونوں کی موجودگی اس ہندو، مسلم، سکھ ملن ورتن کی نشانی ہے جسے جوگی صوفی ریت کہنا درست ہوگا۔
بابا نانک پنجاب کی وہ آواز تھی جس کا مخاطب دھرتی پنج دریائی ہی نہ تھی بلکہ ہندوستان سمیت پورا جنوبی ایشیا تھا۔ بابا نانک کا دور 1469ء سے 1539ء پر محیط ہے مگر وہ ایک تسلسل کا نام تھے جو ٹلہ جوگیاں اور گوتم بدھ سے براستہ بابا فرید آگے بڑھا اور امیر خسرو اور بھگت کبیر سے ہوتا ہوا بابا نانک کی صورت دیس پنجاب میں آشکار ہوا۔
اس جوگی صوفی ریت پر اپنے علامہ اقبال کی نظر برابر تھی کہ جس کا اظہار بابا نانک سے منسوب اپنی ایک نظم میں محفوظ کیا ہے۔ انہیں افسوس تھا کہ شمع گوتم تو چین وغیرہ میں جل رہی ہے اور ہمارے ہاں ہندو، مسلم، سکھ سب 20ویں صدی میں بھی براہمن ویہار کے مرید ہیں۔
برہمن سرشار ہے اب تک مئے پندار میں
شمع گوتم جل رہی ہے محفل اغیار میں
اس گھاٹے کو بقول اقبال 15ویں صدی میں بابا نانک نے پورا کیا اور اسی نظم کا آخری شعر اسی سفر سے عبارت ہے کہ
پھر اٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے
ہند کو اک مرد کامل نے جگایا خواب سے
بابا نانک کی آواز مذہبوں اور دھرموں سے بلند ہوکر انسانوں سے اپیل تھی کہ جس میں شودروں کی حمایت نمایاں تھی۔ یہی نہیں بلکہ جب گرنتھ صاحب کی تدوین کی گئی تو اس میں 6 گروؤں اور 28 بھگتوں کے کلام کے ساتھ ساتھ پنجابی صوفی شاعر بابا فرید کا کلام بھی شامل ہے اور کم تر طبقاتی حیثیت رکھنے والوں کے کلام کو بھی اس کا حصہ بنایا گیا۔ یوں بابا نانک اس ملن ورتن، رنگا رنگی اور تنوع کی عملی تفسیر تھے کہ جسے اقبال نے ایسا مردِ کامل کہا جس نے ہند کو جگانے کی کوشش کی۔ انہی بابا نانک کے دم قدم سے کرتارپور زندہ و تابندہ ہے۔
بابا نانک، جوگی صوفی ریت اور پنجاب کی تاریخ کے پس منظر سے آشنا نوجوانوں کے ہمراہ صبح سویرے کرتارپور کو روانہ ہوئے۔ جاتے جاتے یہ معلوم ہوگیا کہ کرتارپور کا افتتاح کروانے والوں کو کوئی نہ کوئی جلدی ضرور تھی کہ سڑک افتتاح کے کئی مہینوں بعد بھی زیرِ تعمیر ہی تھی۔ دربار پہنچنے سے قبل متعدد ایجنسیوں کے چوکس اہلکار تعینات نظر آئے جو بار بار درشکوں کی تلاشیاں لینے پر مامور تھے۔
عام آدمی تو بے چارہ انہیں دیکھ کر دُور ہی سے بابا جی کو سلام کرنے میں عافیت جانے گا۔ اس مرحلے سے گزرنے کے بعد انٹری کروائی گئی اور یوں اس کرتارپور میں داخل ہوئے جس کا ملک بھر میں باوجوہ بہت چرچا ہے۔ تاہم جب کرتارپور کی افتتاحی تقریب میں اپوزیشن لیڈران ہی کو مدعو نہیں کیا گیا تھا تو اس سے بھی یہ معاملہ مشکوک ہوا تھا۔ ویسے بھی 5 اگست 2019ء سے کشمیر میں جاری ظلم ایک حد تک نومبر میں طے شدہ کرتارپور کے افتتاح کو گہنا چکا تھا، اس کے باوجود کرتارپور پراجیکٹ کو چلانے کے جتن تو برابر جاری ہیں مگر وہاں جاکر اس کے گھاٹوں کا اندازہ ہوا۔