'نواز شریف کا مریم نواز کے بغیر سرجری نہ کرانے کا بیان نامناسب ہے'
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے پارٹی قائد نواز شریف کی جانب سے مریم نواز کی عدم موجودگی میں سرجری نہ کرانے کے فیصلے کو نامناسب قرار دے دیا۔
نجی چینل 'اے آر وائی' کے پروگرام 'آف دی ریکارڈ' میں میزبان کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ مریم نواز کے بغیر سرجری نہ کرانے کا بیان نامناسب ہے۔
مزیدپڑھیں: رہنما مسم لیگ (ن) شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال اڈیالہ جیل سے رہا
انہوں نے کہا کہ 'یہ بیان جذباتی ہے کیونکہ ان کی بیٹی ہے اور نواز شریف چاہتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ ہوں'۔
شاہد خاقان عباسی نے سوال اٹھایا کہ 'مریم نواز کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کی کیا وجہ ہے'۔
علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ حکومت کو نواز شریف کی طبی رپورٹ پسند نہیں آرہی ہیں اور اگر ان کے نزدیک رپورٹ غیر مصدقہ ہیں تو عدالت سے رجوع کرسکتے ہیں۔
علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ جو طبی ٹیسٹ کرائے گئے ہیں، رپورٹ کے ہمراہ مطلوبہ ٹیسٹ رپورٹ بھی حکومت کو ارسال کردینی چاہیے۔
شاہد خاقان عباسی نے سوال اٹھایا کہ کیا نواز شریف کی طبی رپورٹس پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، کیا ایسا کرنا مناسب ہے کہ ایک بیمار شخص کی صحت کو چینلز پر موضوع بحث بنایا جائے۔
جس پر پروگرام کے میزبان نے سوال کیا کہ 'یہ آپ کہہ رہے ہیں، نواز شریف کی لندن روانگی سے ان کی طبی کنڈیشن سے متعلق قبل لمحہ بہ لمحہ خبریں مسلم لیگ (ن) بتا رہی تھیں'۔
مزیدپڑھیں: حکومت نے نواز شریف کی واپسی کیلئے برطانیہ کو خط لکھ دیا
واضح رہے کہ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی واپسی کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے برطانیہ کو خط لکھنے کی تصدیق کی ہے۔
شاہ محمو قریشی نے کہا تھا کہ ‘خط لکھ دیا گیا ہے اور تفصیلات بعد میں بتائی جائیں گی’۔
خط سے متعلق سوال میں شاہ خاقان عباسی نے کہا کہ 'موجودہ حکومت ملک کی بے عزتی کرانا چاہتی ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'میں بھی وزیراعظم کے منصب پر رہ چکا ہوں لیکن کبھی بیرون ملک اداروں کو خط نہیں لکھا'۔
واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کیس میں ضمانت منظوری کے بعد اڈیالہ جیل راولپنڈی سے حال ہی میں رہا ہوئے ہیں۔
ان پر الزام ہےکہ انہوں نے اس وقت قوائد کے خلاف ایل این جی ٹرمینل کے لیے 15 سال کا ٹھیکہ دیا، یہ ٹھیکہ اس وقت دیا گیا تھا جب سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور حکومت میں شاہد خاقان عباسی وزیر پیٹرولیم تھے۔
اس ضمن میں خیال رہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف گزشتہ برس نومبر میں عدالت کی اجازت کے بعد علاج کے لیے برطانیہ چلے گئے تھے جبکہ وہ احتساب عدالت کی جانب سے دی گئی سزا پر لاہور کے کوٹ لکھپت جیل میں موجود تھے۔
مزیدپڑھیں: نواز شریف کو ضمانت میں توسیع نہ ملنے پر مسلم لیگ (ن) کا عدالت سے رجوع کا اعلان
علاوہ ازیں وزیراعظم کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے کہا تھا کہ 'وزارت خارجہ نے ان کی پاکستان واپسی کے لیے خط لکھ دیا گیا ہے اور نواز شریف اور ان کے سہولت کار اپوزیشن لیڈر سے گزارش کی گئی ہے جو قیدی صاحب جو بیمار ہیں پردیس سے دیس تشریف لے آئیں'۔
فردوس عاشق اعوان نے کہا تھا کہ 'قانون نے 8ہفتوں کی اجازت دی تھی اور قانون نے علاج کے لیے ایک راستہ دیا تھا، آپ نے اپنی سہولت اور رعایت کے مطابق ہمیشہ قانون کو استعمال کیا ہے، رپورٹ مانگی گئی کہ کس ہسپتال میں ہیں، ایک شخص 105 دن باہر رہ کر بھی اپنے ملک کو اپنی صحت کی بہتری کی رپورٹ نہیں بھیجتا اور کوئی اطلاع نہیں دیتا اور علاج معالجہ نہیں کرتا تو اس کا مطلب ہے کہ آپ نے اس اجازت کا غلط استعمال کیا'۔
نواز شریف کی علاج کے لیے برطانیہ روانگی
سابق وزیراعظم گزشتہ برس نومبر کے اواخر میں اپنے بھائی شہباز شریف اور ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان کے ہمراہ ایئر ایمبولینس میں علاج کے لیے لندن پہنچے تھے۔
انہیں اکتوبر میں خرابی صحت کے باعث قومی احتساب بیورو (نیب) کے دفتر سے لاہور کے سروسز ہسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں ان کے پلیٹلیٹس میں مسلسل کمی کے باعث صحت پیچیدہ ہورہی تھی۔
ماہر امراض خون نے نواز شریف کو ایکیوٹ امیون تھرمبو سائیٹوپینیا (آئی ٹی پی) نامی بیماری لاحق ہونے کی تشخیص کی تھی جو خون کے خلیات میں خرابی کی علامت ہے۔
بعدازاں نواز شریف کے علاج کے لیے تشکیل دیے گئے میڈیکل بورڈ نے بتایا تھا کہ ان کے کچھ طبی ٹیسٹس اور علاج بیرونِ ملک میں ہی ممکن ہیں۔
جس پر العزیزیہ ریفرنس کیس میں قید کی سزا کاٹنے والے مسلم لیگ (ن) کے قائد نے بیرونِ ملک روانگی کی اجازت کے حصول کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
جہاں لاہور ہائی کورٹ نے پہلے ان کی چوہدری شوگر ملز کیس میں ضمانت منظور کی تھی، جس کے بعد اسلام آباد کورٹ نے ابتدائی طور پر العزیزیہ ریفرنس میں ان کو 3 دن کی ضمانت دی تھی، بعدازاں درخواست پر مزید سماعت کے بعد عدالت عالیہ نے ان کی سزا کو 8 ہفتوں کے لیے معطل کردیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کی صحت کیلئے پلیٹلیٹس کا بہتر ہوناضروری ہے، حسین نواز
8 نومبر کو شہباز شریف وزارت داخلہ کو نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست دی تھی جس کے بعد حکومت نے نواز شریف کو 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی مشروط اجازت دینے کا اعلان کیا جس کے تحت روانگی سے قبل انہیں 7 ارب روپے کے انڈیمنٹی بانڈز جمع کروانے تھے۔
تاہم انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے علاج کے بعد وطن واپسی کی ضمانت کے لیے 7 ارب روپے کے انڈیمیٹی بانڈز جمع کروانے کی شرط پر بیرونِ ملک جانے سے انکار کردیا تھا۔
جس کے بعد ان کے بھائی اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے عدالت میں تحریری طور پر اس بات کا وعدہ کیا تھا کہ وہ نواز شریف کی صحت یابی کے بعد ڈاکٹروں کی جانب سے سفر کی اجازت ملنے پر ان کی وطن واپسی یقینی بنائیں گے جس پر عدالت نے نواز شریف کو 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی تھی.
چنانچہ وزارت داخلہ سے 18 نومبر کو بیرون ملک سفر کے لیے گرین سگنل ملنے کے بعد 19 نومبر کو قائد مسلم لیگ (ن) خصوصی طور پر بلائی گئی ایئر ایمبولینس کے ذریعے علاج کے لیے لندن پہنچ گئے تھے۔