قبائلی متاثرین کی بات سنو، کہیں دیر نہ ہوجائے
شمالی وزیرستان کے تاجروں کو خیبر پختونخوا اسمبلی کے سامنے دھرنا دیے اب ایک ماہ گزر چکا ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ آپریشن ضربِ عضب کے باعث میر علی اور میران شاہ میں ان کے کاروبار کو پہنچنے والے نقصان کو پورا کیا جائے۔
اسی طرح میران شاہ میں تمام کاروباری سرگرمیاں بند پڑی ہیں اور لوگ میران شاہ پریس کلب کے باہر بیٹھے احتجاج کر رہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل حکومت نے ان کے نقصان کے ازالے کا وعدہ کیا تھا۔ مئی 2018ء میں جب میر علی اور میران شاہ کے تاجروں کی کہیں بھی شنوائی نہیں ہوئی تو وہ نیشنل پریس کلب اسلام آباد پہنچے اور تلافی کا مطالبہ کرنے لگے، بعدازاں اُس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر کی یقین دہانیوں پر دھرنا پُرامن طریقے سے ختم کردیا گیا۔
اب ان کے اس احتجاج کو 2 برس گزر چکے ہیں لیکن اب تک ان کے مطالبات نہیں مانے گئے۔ یہی نہیں بلکہ گزشتہ ایک ماہ سے جاری احتجاجی دھرنے کے باوجود صوبائی حکومت کے کان میں جوں تک نہیں رینگی ہے۔ عملی طور پر اب تک کوئی ایک بھی سینئر سیاستدان یا اعلیٰ عہدیدار ان سے ملنے یا ان کی شکایات سننے یا پھر مسائل کے حل کی کوئی امید دینے بھی نہیں آیا۔
یہاں یہ بھی آپ کو بتاتے چلیں کہ بظاہر اس طرح کے مسائل کو حل کرنے کے لیے وزیرِاعلیٰ کے مشیر برائے قبائلی اضلاع بھی صوبائی انتظامیہ میں شامل ہیں۔
مقامی باشندوں کو اپنی دکانوں، گوداموں اور گھروں کو اسی حالت میں چھوڑنا پڑا تھا اور انہیں اپنا قیمتی سازو سامان یا دکان کے مال کو اپنے ساتھ لے جانے کا وقت تک نہیں ملا تھا۔ متعدد سال کیمپوں یا کرائے کی جگہوں پر گزارنے کے بعد جب انہیں لوٹنے کی اجازت ملی تو انہوں نے وہاں کچھ نہیں پایا، سب کچھ ختم ہوچکا تھا۔ لوگوں کو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ ان کی اپنی حکومت ان کے ساتھ یہ سب کرسکتی ہے۔ شدید ردِعمل سے بچنے کے لیے حکومت نے نقصان کے معاوضے کا وعدہ کیا اور جلد بازی میں نقصان کا اندازہ لگانے کے لیے سروے کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔
نقصان کا جائزے لینے کے لیے مختلف کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔ سروے کمیٹیوں نے ایک دوسرے سے مختلف رپورٹس جمع کروائیں۔ انتظامیہ نے اپنے عقل و شعور کے مطابق کسی ایک کمیٹی کی رپورٹ قبول کرلی جبکہ دیگر کو مسترد کردیا۔ چنانچہ اس ایک کمیٹی کو مقامی افراد کی جانب سے جمع کروائے گئے کلیم چاہے کتنے ہی بڑھا چڑھا کر پیش کیوں نہ کیے گئے ہوں انہیں قبول کرلیا گیا جبکہ دیگر کمیٹیوں کو جمع کروائے جانے والے کلیم کو کوڑے دان کی نذر کردیا گیا۔