پاکستان

سوشل میڈیا قواعد پر عملدرآمد معطل کردیا گیا، پی ٹی اے

وزیراعظم عمران خان نے کسی بھی رُول کو لاگو کرنے سے قبل واضح طور پر فوری وسیع البنیاد مشاورت کی ہدایت کی ہے، فوکل پرسن
|

کراچی: 100 سے زائد تنظیموں اور افراد کی جانب سے سٹیزن پروٹیکشن (اگینسٹ آن لائن ہارم) رولز 2020 پر حکومت سے بات چیت کا بائیکاٹ سامنے آنے کے بعد حکام نے وضاحت کردی ہے کہ ان قواعد پر عملدرآمد پہلے ہی معطل کیا جاچکا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حقوق کے لیے کام کرنے والے گروہوں نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت نے ان قواعد کی قانونی حیثیت واضح کرنے سے انکار کردیا ہے جس کے بغیر ’کوئی بھی مشاورت رائے لینے کی حقیقی کاوش نہیں بلکہ محض تنقید کو کم کرنے کا حربہ ہوگی‘۔

اس سلسلے میں جب ڈان نے قواعد کی موجودہ حیثیت کی وضاحت کے لیے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے چیئرمین عامر عظیم باجوہ سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ’مشاورتی عمل کے آخر میں ان قواعد کو بہتر بنانے/ترمیم کرنے کی توقع ہے اس لیے (موجودہ) قواعد پر عملدرآمد معطل کیا جاچکا ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: حقوق کی تنظیموں کا سوشل میڈیا قواعد پر مشاورتی عمل کے بائیکاٹ کا فیصلہ

قبل ازیں کابینہ کی جانب سے منظور کردہ قواعد پر مختلف شعبہ جات اور سوشل میڈیا پلیٹ فامز کی کمپنیوں کی مخالفت کے باعث وزیراعظم نے اس پر اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرنے کا اعلان کیا تھا۔

جس کے بعد 29 فروری کو ان قواعد کی میمو دستاویز جس پر سرکاری گزیٹ میں عنقریب شائع ہونے کا لیبل لگادیا گیا تھا، وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ کمیونیکیشن کی ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا۔

مشاورت کا آغاز

دوسری جانب حقوق کے لیے کام کرنے والی 100 سے زائد تنظیموں اور افراد کے بائیکاٹ کے باوجود وزارت آئی ٹی کی جانب سے وزیراعظم کی ہدایات پر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کے لیے چیئرمین پی ٹی اے کی سربراہی میں قائم کردہ کمیٹی کا پہلا اجلاس ہوا۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم کی سوشل میڈیا قواعد پر تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرنے کی ہدایت

کمیٹی میں ایڈیشنل سیکریٹری آئی ٹی اعزاز اسلم ڈار، ڈیجیٹل پاکستان کی سربراہ تانیہ ایدروس اور فوکل پرسن برائے ڈیجیٹل میڈیا ڈاکٹر ارسلان خالد شامل ہیں۔

اس کے علاوہ وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری اور بیرسٹر علی ظفر کے بھی اس کارروائی میں شریک ہونے کی توقع ہے۔

اجلاس کے بعد جاری کردہ بیان کے مطابق کمیٹی نے فوری طور پر ’سول سوسائٹی، انسانی اور ڈیجیٹل حقوق کی تنظیموں، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ وسیع البنیاد اور کھلے مشاورتی عمل کا فیصلہ کیا تا کہ مختلف فورمز کی جانب سے تحفظات کے اظہار کو دور کرنے کے لیے تعمیری رائے دینے کی درخواست کی جائے‘۔

پی ٹی اے نے کہا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کی رائے لینے کے لیے ایک سوالنامہ اور مشاورتی عمل کا ایک عارضی شیڈول آفیشل ویب سائٹ پر جاری کردیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: سوشل میڈیا رولز پر مشاورت کیلئے وزیر اعظم کی ہدایت پر کمیٹی تشکیل

اس ضمن میں وزیراعظم کے فوکل پرسن برائے ڈیجیٹل میڈیا ارسلان خالد نے کہا کہ تمام کارروائی جامع ہوگی اور شفاف طریقے سے کی جائے گی۔

انہوں نے ڈان کو بتایا کہ ’ان قواعد کا اطلاق ابھی نہیں کیا گیا، وزیراعظم عمران خان نے کسی بھی رُول کو لاگو کرنے سے قبل واضح طور پر فوری وسیع البنیاد مشاورت کی ہدایت کی ہے‘۔

سوشل میڈیا ریگولیٹری قواعد

خیال رہے کہ 28 جنوری کو وفاقی حکومت نے ملک میں سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے قواعد و ضوابط کی منظوری دی تھی جس کا اعلان 12 فروری کو کیا گیا تھا۔

ان اصولوں کے تحت سوشل میڈیا کمپنیاں کسی تفتیشی ادارے کی جانب سے کوئی معلومات یا ڈیٹا مانگنے پر فراہم کرنے کی پابند ہوں گی اور کوئی معلومات مہیا نہ کرنے کی صورت میں ان پر 50 کروڑ روپے کا جرمانہ عائد ہوگا۔

اس حوالے سے جو معلومات فراہم کی جاسکتی ہیں ان میں صارف کی معلومات، ٹریفک ڈیٹا یا مواد کی تفصیلات شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: حکومت نے سوشل میڈیا ریگولیٹ کرنے کے قواعد و ضوابط کی منظوری دے دی

ان قواعد و ضوابط کے تحت اگر کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو تحریری یا الیکٹرانک طریقے سے ’غیر قانونی مواد‘ کی نشاندہی کی جائے گی تو وہ اسے 24 گھنٹے جبکہ ہنگامی صورتحال میں 6 گھنٹوں میں ہٹانے کے پابند ہوں گے۔

علاوہ ازیں ان کمپنیوں کو آئندہ 3 ماہ کے عرصے میں عملی پتے کے ساتھ اسلام آباد میں رجسٹرڈ آفس قائم کرنا ہوگا۔

اس کے ساتھ ان کمپنیوں کو 3 ماہ کے عرصے میں پاکستان میں متعلقہ حکام سے تعاون کے لیے اپنا فوکل پرسن تعینات کرنا اور آن لائن مواد کو محفوظ اور ریکارڈ کرنے کے لیے 12 ماہ میں ایک یا زائد ڈیٹا بیس سرورز قائم کرنا ہوں گے۔

فروری میں مہنگائی کی شرح کم ہوکر 12.4 فیصد ہوگئی

خواتین، بچوں کیخلاف سائبر جرائم پر فیس بک، ایف آئی اے کے ساتھ تعاون کرے گی

نیب ملک ریاض کے ٹھکانے سے لاعلم، جج کا اظہار برہمی