نقطہ نظر

محمد عامر کی پشاور زلمی کو زبردست شکست

جس بال کے بارے میں امپائر، کمنٹیٹرز اور تماشائیوں سمیت سب کو یقین تھا کہ یہ لیگ اسٹمپ سےباہر گری ہے وہ سب غلط ثابت ہوگئے

پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) 2020ء کے 15ویں میچ کا آغاز ہی دھماکہ خیز تھا۔ پہلے اوور میں ہی محمد عامر نے پشاور زلمی کے کھلاڑیوں پر کچھ ایسا اثر ڈالا کہ وہ میچ کے اختتام تک اس سے نکل ہی نہ پائے۔

محمد عامر کی پہلی ہی گیند پر ٹام بینٹن ایل بی ڈبلیو ہوئے مگر امپائر نے اس کا انکار کردیا۔ بظاہر لگ بھی یہی رہا تھا کہ بال لیگ اسٹمپ سے باہر گری ہے لیکن محمد عامر نہ صرف خود پُرامید تھے کہ یہ آؤٹ ہے بلکہ انہوں نے کپتان عماد وسیم کو بھی ریویو لینے کے لیے راضی کرلیا، اور سچ پوچھیے تو کیا ہی بہترین ریویو تھا۔

جس بال کے بارے میں امپائر، کمنٹیٹرز اور تماشائیوں، سب کو یقین تھا کہ یہ لیگ اسٹمپ سے باہر گری ہے، ان سب کو اس ریویو نے غلط ثابت کردیا اور یوں ٹام بینٹن پاکستان سپر لیگ میں ایک بار پھر ناکام ہوکر پویلین لوٹ گئے۔

محمد عامر کی اگلی گیند جو یارکر پھینکنے کی کوشش میں فل ٹاس بن گئی، اس کو حیدر علی نے سیدھا چوکا مار دیا لیکن اگلی ہی گیند جو آف اسٹمپ پر گری، باہر جانے کے بجائے سیدھی ہوگئی اور پھر جس گیند کو روہت شرما جیسا بیٹسمین نہ کھیل سکا وہ نوجوان حیدر علی کے بس میں کہاں تھی۔

حیدر علی کو چاہیے کہ جتنے مواقع ان کو مل رہے ہیں وہ ان سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی پوری پوری کوشش کریں۔ کیونکہ پاکستان سپر لیگ میں نئے بیٹسمینوں کو کم ہی موقع ملتا ہے۔ حیدر علی کی بیٹنگ اور ہٹنگ ایسی ہے کہ اگر وہ ان مواقع کا بھرپور فائدہ اٹھائیں، اور بڑے شاٹس کھیلنے کے ساتھ ساتھ بڑی اننگ بھی کھیلنے کی کوشش کریں تو کافی آگے جا سکتے ہیں۔

میچ سے پہلے ٹاس کے وقت اس وقت سب حیران رہ گئے جب عماد وسیم کے ساتھ ٹاس کرنے کے لیے ڈیرن سیمی کی جگہ وہاب ریاض آئے اور پھر ٹاس بھی ہار گئے۔ پشاور زلمی کے مستقل کپتان ڈیرن سیمی اس میچ میں آرام کر رہے تھے۔ سیمی کے علاوہ بھی پشاور میں 2 تبدیلیاں کی گئیں جبکہ کراچی کنگز میں عمید آصف کی جگہ عامر یامین کو شامل کیا گیا اور انہوں نے 4 اوورز میں صرف 22 رنز دے کر ایک کھلاڑی کو آؤٹ کرکے اپنی شمولیت کو درست ثابت کردیا۔ پھر یہ بھی یاد رہے کہ انہوں نے خطرناک کامران اکمل کی وکٹ لی تھی۔

ایک میچ کے بعد واپسی کرنے والے شعیب ملک نے پشاور زلمی کی اننگ کو لوِنگ سٹون کے ساتھ مل کر سنبھالا تو ضرور مگر شعیب کا طریقہ کار کچھ پرانا تھا۔ آج کل کی کرکٹ میں شروعات میں اگر 2 سے 3 وکٹیں گر بھی جائیں تو اچھی بیٹنگ وکٹوں پر بیٹسمین اسکور بنانے کی رفتار کم نہیں ہونے دیتے۔

پشاور زلمی کے بیٹسمینوں نے رنز بنانے کی رفتار تیز کرنے کا کام بہت دیر سے شروع کیا۔ جب انہوں نے عمر خان کے ایک اوور میں 15 رنز بناکر اپنے ارادوں کا اظہار کیا تو محمد عامر کی واپسی ہوگئی اور انہوں نے لوئس گریگوری اور کارلوس بریتھویٹ کو پویلین بھیج کر پشاور کے لیے مزید مشکلات بڑھا دیں۔

پشاور کی اننگ کسی بھی لمحے وہ رفتار نہیں پکڑ پائی جس کی آج کل کی کرکٹ میں ضرورت ہے۔ شعیب ملک نے 55 گیندوں پر 68 رنز ضرور بنائیں لیکن ان سمیت پشاور زلمی کا کوئی بھی بیٹسمین میچ کو کراچی کنگز سے دُور نہیں لے جاسکا۔ کراچی کنگز کی جانب سے محمد عامر نے شاندار باؤلنگ کرتے ہوئے صرف 25 رنز دے کر 4 وکٹیں حاصل کیں۔ ان کے علاوہ کرس جورڈن نے 2 جبکہ عامر یامین اور عمر خان نے ایک، ایک وکٹ حاصل کی۔

کراچی کی بیٹنگ

کراچی کنگز کی اننگ کا آغاز بھی مختلف نہیں رہا، کیونکہ شرجیل خان صرف 4 رنز بناکر پہلے ہی اوور میں حسن علی کا شکار بن گئے. شرجیل خان کی اس وکٹ میں جہاں ان کے اپنے غلط شاٹ کا قصور تھا، وہیں غلط امپائرنگ اور پھر کراچی کی اوپننگ جوڑی کی جانب سے ریویو نہ لیا جانا بھی اس وکٹ کے گرنے میں برابر کا ذمہ دار تھا۔ کیونکہ جس بال پر شرجیل آؤٹ ہوئے وہ واضح طور پر وکٹوں سے باہر جارہی تھی۔

لیکن کراچی کی اننگ کو شرجیل کی وکٹ سے کوئی خاص نقصان نہیں پہنچ سکا۔ ابتدا میں بابر اعظم کو کھل کر کھیلنے میں مشکلات ضرور پیش آرہی تھیں لیکن دوسری طرف ایلکس ہیلز آرام سے گیند کو باؤنڈری سے باہر پھینک رہے تھے۔ ہیلز کے بہترین اسٹرائیک ریٹ نے بابر اعظم کو کسی بھی وقت پریشانی کا شکار نہیں ہونے دیا۔ بابر اعظم پہلے میچ میں نصف سنچری کے بعد سے 3 میچوں میں ناکام ہو رہے تھے اور اس میچ میں بھی کچھ بہتر نظر نہیں آرہے تھے۔

لیکن ایلکس ہیلز کی تیز بلے بازی سے مطلوبہ رن ریٹ کسی بھی وقت پریشان کن نہیں بن سکا اور پھر آہستہ آہستہ بابر کی فارم بھی واپس آنے لگی۔

ابھی ہیلز اپنی شاندار نصف سنچری سے محض ایک ہی رن دُور تھے کہ یاسر شاہ نے انہیں بولڈ کردیا۔ یاد رہے کہ یاسر شاہ ابتدائی اسکواڈ کا حصہ نہیں تھے اور محمد محسن کے ان فٹ ہونے پر انہیں ٹیم میں شامل کیا گیا تھا۔ ان کے انتخاب پر کئی حلقوں کی جانب سے تنقید کی جارہی تھی کہ نوجوانوں کو موقع دینے کے بجائے ایسے کھلاڑی کو شامل کیوں کیا گیا جن کا اب اس فارمیٹ میں مزید کوئی کردار نہیں رہ گیا۔ لیکن یاسر نے اس تنقید کو زیادہ اہمیت نہیں دی اور اسی اوور میں کیمرون ڈیلپورٹ کو بھی پویلین بھیج دیا۔

لیکن اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی اور بابر بھی فارم میں واپیس آچکے تھے، جبکہ مطلوبہ رن ریٹ بھی قابو میں تھا۔ بابر اعظم نے کم اسٹرائک ریٹ سے ہی سہی مگر 70 رنز کی اننگ ضرور کھیلی اور چیڈوک والٹن کے ساتھ مل کر کراچی کنگز کو فتح تک پہنچا دیا۔

محمد عامر کو ان کے بہترین باؤلنگ اسپیل کی وجہ سے مین آف دی میچ قرار دیا گیا۔

پشاور زلمی کی بیٹنگ کا اس ٹورنامنٹ میں بہت زیادہ انحصار کامران اکمل اور حیدر علی پر لگ رہا ہے۔ ان دونوں کے جلد آؤٹ ہونے کے بعد پشاور کی بیٹنگ سنبھل نہ پائی اور 3 بیٹسمینوں کی کوششوں کے باوجود ایک بڑا اسکور نہیں بن سکا۔

پاکستان سپر لیگ میں اس بار میچ کے فیصلے کا بہت زیادہ دار و مدار ٹاس پر ہوچکا ہے۔ ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کرنے والی ٹیمیں ہی زیادہ تر میچ جیت رہی ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو کچھ ایسا کرنا ہوگا جس سے جیت کا انحصار ٹاس پر کم سے کم ہوسکے۔

شہزاد فاروق

ایم بی اے مارکیٹنگ کرنے کے بعد نوکری سیلز کے شعبے میں کررہا ہوں۔ کرکٹ دیکھنے اور کھیلنے کا بچپن سے جنون تھا ۔ پڑھنے کا بچپن سے شوق ہےاور اسی شوق نے لکھنے کا حوصلہ بھی دیا۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔