پاکستان

شیریں مزاری کی ’عورت مارچ‘ کو رکوانے کے بیانات کی مذمت

سماج کے دیگر افراد کی طرح خواتین کو بھی پر امن طریقے سے اپنے حقوق کے لیے مطالبات کرنے کا حق حاصل ہے، وفاقی وزیر

انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیریں مزاری نے ملک کے سیاسی رہنماؤں کی جانب سے ’عورت مارچ‘ کو رکوانے کے بیانات کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’خواتین کو بھی پر امن طریقے سے احتجاج کرنے کا حق حاصل ہے‘۔

پاکستان بھر میں آئندہ ہفتے 8 مارچ کو عالمی یوم خواتین کے موقع پر ملک بھر میں ’عورت مارچ‘ منعقد کیے جائیں گے اور اس حوالے سے تیاریاں جاری ہیں۔

پاکستان میں گزشتہ سال سے ’عورت مارچ‘ کے انعقاد کا سلسلہ شروع ہوا اور ’عورت مارچ‘ کے حوالے سے کافی تنقید بھی سامنے آئی۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور ہائی کورٹ: عورت مارچ رکوانے کی درخواست سماعت کیلئے منظور

ماضی کی طرح اس سال بھی ’عورت مارچ‘ شروع ہونے سے قبل ہی اس پر تنقید کی جا رہی ہے اور مختلف سیاسی و سماجی رہنما اس حوالے سے اپنے بیانات دے رہے ہیں۔

’عورت مارچ‘ کو رکوانے یا مارچ میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے عوام کو آگے آنے کے لیے اکسانے والے بیانات پر انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیریں مزاری نے سیاسی رہنماؤں کے ایسے اقدمات کی مذمت کی۔

شیریں مزاری نے اپنی مختصر ٹوئٹ میں لکھا کہ ’وہ ان سیاسی رہنماؤں کے ان بیانات کی سختی سے مذمت کرتی ہیں جس میں سیاسی لیڈر لوگوں کو زبردستی ’عورت مارچ‘ رکوانے کا کہہ رہے ہیں‘۔

انسانی حقوق کی وفاقی وزیر نے کسی کا نام لیے بغیر سیاسی رہنماؤں کےبیانات کی مذمت کی اور لکھا کہ ’معاشرہ دیگر افراد کی طرح خواتین کو بھی پر امن طریقے سے اپنے حقوق کے لیے مطالبات کرنے کا حق دیتا ہے جو پہلے ہی قانون نے انہیں دے رکھے ہیں‘۔

مزید پڑھیں: اظہار رائے پر پابندی نہیں لگا سکتے، لاہور ہائی کورٹ کے عورت مارچ کیس میں ریمارکس

انہوں نے مزید کہا کہ ان کی حکومت خواتین کو خود مختار بنانے کے لیے پر عزم ہے جب کہ حکومت نے پہلے ہی لڑکیوں اور خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے پروگرامات اور اصلاحات متعارف کرا رکھی ہیں۔

انہوں نے سیاسی رہنماؤں کی جانب سے زبردستی ’عورت مارچ‘ کو رکوانے کے بیانات کی سختی سے مذمت کی۔

شیریں مزاری کے بیان سے قبل جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے ایک جلسے میں خطاب کے دوران کہا تھا کہ ’انسانی حقوق کے نام پر کسی کو بھی اسلامی و ملکی اقدار کو پامال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی‘۔

مولانا فضل الرحمٰن کا اپنے خطاب میں مزید کہنا تھا کہ ’اگر کوئی فحاشی کے نام پر اس ملک کی تہذیب کو روندنے کی کوشش کرے گا تو ہم سڑکوں پر آئیں گے اور ابتدائی طور پر ہم قانون کا سہارا لیتے ہوئے سیکیورٹی فورسز کو ان کو روکنے کا کہیں گے‘۔

جے یو آئی رہنما کا کہنا تھا کہ اگر سیکیورٹی فورسز نے ہماری درخواست پر عمل نہیں کیا اور انہیں روکنے کے بجائے انہیں سیکیورٹی فراہم کی تو ہم خود سڑکوں پر آ کر انہیں روکیں گے۔

مولانا فضل الرحمٰن سے قبل لاہور کے ایک وکیل بھی ’عورت مارچ‘ کو رکوانے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں گئے تھے تاہم عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ ’اظہار رائے کی آزادی پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی‘۔

لاہور ہائی کورٹ نے پولیس اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) سے عورت مارچ کو سیکیورٹی فراہم کرنے کے حوالے سے بھی تفصیلات طلب کی تھیں۔

عورت مارچ نہیں اس پر پابندی کی بات کرنے والوں کی سوچ فحش ہے، حناجیلانی

شرپسندوں نے 'عورت مارچ' کے پوسٹرز پھاڑ دیے

’ماں ہوں، بہن ہوں، گالی نہیں ہوں‘