لائف اسٹائل

ارجنٹینا کے صدر کا ’اسقاط حمل‘ کو جائز قرار دینے کا اعلان

ریاست کو عوام اور خاص طور پر خواتین کی صحت کا خیال رکھنا چاہیے، ہر شخص کو اپنے جسم پر اختیار دینا ہوگا،البرٹو فرنانڈز

خواتین کی آزادی، خودمختاری اور اپنی صدارتی مہم کے دوران خواتین سے ’اسقاط حمل‘ کو جائز قرار دلانے کے وعدے کرنے والے جنوبی امریکا کے ملک ارجنٹینا کے صدر نے اعلان کیا ہے کہ وہ جلد ایوان کو ’ابارشن‘ کو جائز قرار دینے کا بل بھجوائیں گے۔

ارجنٹینا کے صدر البرٹو فرنانڈز نے ’اسقاط حمل‘ کو جائز قرار دلانے کا اعلان ایک ایسے وقت میں کیا ہے جب کہ وہاں خواتین ایک بار پھر ’اسقاط حمل‘ کی اجازت کے لیے متحرک ہیں۔

گزشتہ ماہ سے ہی ارجنٹینا میں ہزاروں خواتین ملک کے مختلف شہروں میں ’اسقاط حمل‘ کو جائز قرار دلانے کے لیے مظاہرے کر رہی ہیں اور عالمی یوم خواتین کے موقع پر خواتین نے ملک بھر میں 80 سے زائد مظاہروں کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔

خواتین کی جانب سے ’اسقاط حمل‘ کو جائز قرار دلانے کی مہم البرٹو فرنانڈز کے صدر بننے کے چار ماہ بعد شروع ہوئی، اس سے قبل بھی یہ مہم جاری تھی مگر وقتی طور پر اس میں خاموشی آگئی تھی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ البرٹو فرنانڈز نے بھی 2018 سے 2019 تک ملک بھر میں ’اسقاط حمل‘ کو جائز قرار دلانے کے لیے خواتین کی جانب سے نکالے گئے مارچ اور احتجاجوں میں شرکت کی تھی اور انہوں نے ’ابازشن‘ کو خواتین کی صحت کا اہم ترین مسئلہ قرار دیا تھا۔

البرٹو فرنانڈز صدر منتخب ہونے سے قبل ہی ’اسقاط حمل‘ کے حمایتی تھے اور انہوں نے اپنی انتخابی مہم بھی اس نقطے سے چلائی تھی اور وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ صدر بن گئے تو وہ ’ابارشن‘ کو قانونی قرار دلائیں گے۔

اور اب انہوں نے خواتین کے دوبارہ متحرک ہونے اور ان کے شدید احتجاج کے پیش نظر اعلان کیا ہے کہ وہ جلد ہی ’اسقاط حمل‘ کو جائز قرار دلانے کا بل پارلیمنٹ کو بھیجیں گے۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق البرٹو فرنانڈز نے اعلان کیا کہ وہ کچھ عرصے میں ابارشن کو قانونی قرار دلانے کا بل ارجنٹینا کے کانگریس میں بھجوائیں گے۔

اس اعلان سے قبل بھی انہوں نے نئے سال کے اپنے کانگریس کے پہلے خطاب میں بھی اسقاط حمل پر بات کی تھی اور اسے خواتین کی صحت سے منسلک کیا تھا۔

انہوں نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ریاست کو عام عوام اور خصوصی طور پر خواتین کی حفاظت کے لیے اقدامات کرنے چاہیے اور چوں کہ 21 ویں صدی ہے اس لیے خواتین کو اپنی صحت سے متعلق فیصلے کرنے کی آزادی ہونی چاہیے اور کسی بھی فرد کو اپنے جسم پر مکمل اختیار ہونا چاہیے۔

اپنے خطاب میں جہاں انہوں نے اسقاط حمل کے حوالے سے بات کی تھی، وہیں انہوں نے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ ملک میں جنسی تعلیم کے حوالے سے بہتریاں لائیں گے۔

ارجنٹینا کے صدر کے اعلان کے بعد اب خیال کیا جا رہا ہے کہ ’اسقاط حمل‘ کو جائزہ قرار دلانے کا بل جلد پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا اور اگر وہ بل منظور ہوگیا تو ارجنٹینا خطے کا وہ پہلا بڑا ملک بن جائے گا، جہاں ’ابارشن‘ کی اجازت ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: ’اسقاط حمل‘ کو جائز قرار دلانے کیلئے ارجنٹینا میں خواتین پھر متحرک

اس سے قبل 2018 میں خواتین کے مظاہروں کے بعد بھی حکومت نے ایک مجوزہ بل پر کچھ قانون سازی کی تھی جس کے بعد خواتین کو 14 ہفتوں تک کے حمل کو ضائع کروانے کی اجازت حاصل ہوگی تاہم بعد ازاں رومن کیتھولک مسیحیوں کی مخالفت کے بعد اس بل پر مزید قانون سازی نہیں ہو سکی۔

ارجنٹینا میں ’اسقاط حمل‘ کو قانونی قرار دلانے کی مہم فروری 2019 میں اس وقت اپنے عروج پر تھی جب ملک میں ایک 11 سالہ بچی نے آپریشن کے ذریعے بچے کو جنم دیا تھا۔

مذکورہ بچی ’ریپ‘ کا شکار ہوئی تھی اور اسے اپنی والدہ کے پارٹنر 65 سالہ مرد نے ’جنسی زیادتی‘ کا نشانہ بنایا تھا مگر ملک میں ’اسقاط حمل‘ پر پابندی کی وجہ سے 11 سالہ بچی نے سی سیکشن کے ذریعے بچے کو جنم دیا تھا جس کے بعد ملک بھر کی خواتین سڑکوں پر نکل آئی تھیں۔

ارجنٹینا کا شمار بھی جنوبی امریکا کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جہاں کم عمر لڑکیاں زیادہ حاملہ ہوتی ہیں، گزشتہ سال ارجنٹینا کی حکومت نے ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اندازاََ ملک میں ہر سال ساڑھے تین لاکھ غیر قانونی اسقاط حمل ہوتے ہیں تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں کا ماننا ہے کہ غیر قانونی اسقاط حمل کی تعداد 5 لاکھ تک ہے۔

ارجنٹینا کی طرح خطے کے دیگر ممالک میں بھی اسقاط حمل کو قانونی قرار دلانے کی مہم جاری ہے جب کہ امریکا کی کئی ریاستوں میں بھی اس عمل کو قانونی قرار دلانے کے لیے مہم جاری ہے۔

دبئی کے شیف کی مسلمانوں کی حمایتی ہندو خاتون کو ’ریپ‘ کی دھمکی

اداکارہ سعدیہ غفار رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئیں

اداکاری چھوڑی نہیں صرف بریک لیا ہے، حمزہ علی عباسی