امریکا-طالبان معاہدہ: افغان صدر نے طالبان قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ مسترد کردیا
افغان صدر اشرف غنی نے امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے میں شامل 5 ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی سے متعلق شق کو مسترد کردیا۔
برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق افغان حکومت اور طالبان کے درمیان انٹرا افغان مذاکرات کے لیے کوششوں میں مصروف مغربی سفارت کاروں کا ماننا ہے کہ افغان صدر کا یہ بیان امریکی مذاکرات کاروں کے لیے مشکلات کا باعث ہوسکتا ہے۔
مزید پڑھیں: امن معاہدے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ ذاتی طور پر طالبان سے ملنے کے خواہاں
افغانستان میں 2 دہائیوں سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے گزشتہ روز افغان طالبان اور امریکا کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں معاہدہ ہوا، جس کے دوسرے ہی روز افغان صدر اشرف غنی نے کابل میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ‘افغان حکومت نے 5 ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے کوئی وعدہ نہیں کیا’۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز ہونے والے معاہدے میں یہ بات شامل تھی کہ امریکا اور طالبان، اعتماد کی فضا کو قائم کرنے کے لیے فوری طور پر سیاسی اور جنگی قیدیوں کو رہا کریں گے، جس کے لیے تمام متعلقہ فریقین سے رابطہ کیا جائے گا اور ان سے اجازت لی جائے گی۔
اس میں مزید کہا گیا تھا کہ 10 مارچ تک افغان حکومت کی قید میں موجود 5 ہزار طالبان قیدیوں کو ایک ہزار قیدیوں کے بدلے میں رہا کردیا جائے گا۔
تاہم قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے افغان صدر کا کہنا تھا کہ ‘یہ امریکا کے دائرہ اختیار میں نہیں تھا بلکہ وہ صرف ایک سہولت کار کا کردار ادا کررہے تھے'۔
یاد رہے کہ ہفتے کو دوحہ میں ہونے والے امن معاہدے پر امریکا کے معاون خصوصی برائے افغان امن عمل زلمے خلیل زاد اور طالبان کے سیاسی سربراہ ملا عبدالغنی برادر نے دستخط کیے تھے اور اس موقع پر امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو بھی موجود تھے۔
معاہدے سے متعلق منعقدہ تقریب کے موقع پر ملا برادر نے ناروے، ترکی اور ازبکستان کے وزرائے خارجہ سے ملاقات کی تھی، اس کے علاوہ انہوں نے روس، انڈونیشیا اور دیگر پڑوسی ممالک کے سفرا سے بھی ملاقات کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: افغان امن معاہدے کے اہم نکات
طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بتایا کہ ‘ملا برادر سے ملاقات کرنے والے اعلیٰ سطح کے حکام نے افغانستان کی تعمیر نو اور ترقی کے حوالے سے اپنے عزم کا اظہار کیا جبکہ امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والا امن معاہدہ تاریخی ہے'۔
علاوہ ازیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے معاہدے پر ہونے والی تنقید کو مسترد کیا اور کہا کہ وہ جلد طالبان رہنماؤں سے ملاقات کریں گے۔
دوسری جانب عبدالغنی کے مشیران کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا طالبان سے ملاقات کا فیصلہ حکومت کو اس وقت مشکلات سے دوچار کرسکتا ہے جب فوری طور پر امریکی فوج کا انخلا ہونے جارہا ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس ستمبر میں افغان طالبان کے رہنماؤں اور ڈونلڈ ٹرمپ میں امریکی ریاست میری لینڈ میں واقع کیمپ ڈیوڈ میں ملاقات طے ہوئی تھی تاہم اس وقت کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کے استعفیٰ کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے وہ ملاقات منسوخ کردی تھی۔
ڈونلڈ ٹرمپ اور طالبان رہنماؤں کے درمیان ملاقات منسوخ ہونے کے بعد امریکا اور طالبان کے درمیان جاری امن مذاکرات بھی تعطل کا شکار ہوگئے تھے تاہم بعدمیں پاکستان اور افغانستان کی حکومت کی کوششوں سے امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدے طے پاگیا۔
چار صفحات پر مشتمل افغان امن معاہدہ 4 مرکزی حصوں پر مشتمل ہے۔
- طالبان افغانستان کی سرزمین کسی بھی ایسی تنظیم، گروہ یا انفرادی شخصکو استعمال کرنے نہیں دیں گے جس سے امریکا یا اس کے اتحادیوں کو خطرہہوگا۔
- افغانستان سے امریکی اور اس کے اتحادیوں فوجیوں کا انخلا یقینی بنایاجائےگا۔
- طالبان 10مارچ 2020 سے انٹرا افغان مذاکرات کا عمل شروع کریں گے۔
- انٹرا افغان مذاکرات کے بعد افغانستان میں سیاسی عمل سے متعلق لائحہعمل طے کیا جائے گا۔