دنیا

امن معاہدے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ ذاتی طور پر طالبان سے ملنے کے خواہاں

ہمیں جنگ کوختم کرنے کا موقع 18سال بعد ملا، امن معاہدے پر تنقید بلاجواز ہے، جلد طالبان رہنماؤں سے ملوں گا، امریکی صدر

افغان طالبان اور امریکی حکومت کے درمیان امن معاہدے طے پانے کے فوری بعد ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ذاتی طور پر طالبان کی اعلیٰ قیادت سے جلد ملنے کی خواہش کا اظہار کردیا۔

افغان طالبان اور امریکی حکومت کے درمیان 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن معاہدہ طے پایا تھا۔

معاہدے کے مطابق امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان سے اگلے 14 ماہ میں تمام غیرملکیوں بشمول عسکری، نیم عسکری، ٹھیکدار، شہری، نجی سیکیورٹی اہلکار اور مشیران کا انخلا کو یقینی بنائیں گے۔

معاہدے میں کہا گیا ہے کہ امریکا اور افغان طالبان کے درمیان معاہدے طے پاگیااس کے اتحادی پہلے 135 دنوں میں 8 ہزار 600 فوجیوں کا انخلا یقینی بنائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدہ ہوگیا

افغان طالبان اور امریکی حکومت کے درمیان طے پاجانے والے معاہدے پر جہاں یورپی یونین اور پاکستان سمیت کئی ممالک نے خوشی کا اظہار کیا ہے، وہیں کچھ امریکی سیاستدان ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کو اس پر تنقید کا نشانہ بھی بنا رہے ہیں تاہم امریکی صدر نے امن معاہدے پر ہونے والی تنقید کو بھی غیر اہم قرار دیا ہے۔

خبرایجنسی رائٹرز کے مطابق امن معاہدہ طے پانے کے چند گھنٹوں بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس پر اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ پریس کانفرنس کی اور افغان طالبان کی اعلیٰ قیادت سے جلد ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وہ جلد ہی افغان طالبان کی قیادت سے ملاقات کا ارادہ رکھتے ہیں تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ کب اور کہاں طالبان کی اعلیٰ قیادت سے ملاقات کریں گے۔

انہوں نے طالبان کے ساتھ طے پاجانے والے امن معاہدے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ بالآخر ہم 18 سال بعد جنگ کو ختم کرنے کا معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوگئے اور ساتھ ہی انہوں نے معاہدے پر تنقید کو مسترد کردیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے معاہدے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ معاہدے کے تحت امریکا اور اس کے اتحادی بیک وقت افغانستان سے 13 ہزار سے ساڑھے 8 ہزار افواج کو فوری طور پر واپس بلا سکتے ہیں اور معاہدہ انہیں یہ بھی اختیار دیتا ہے کہ ضرورت پڑنے پر وہ واپس فوج کو افغانستان میں تعینات بھی کر سکتے ہیں۔

امریکی صدر نے اپنے خطاب کے دوران افغان طالبان سے امن معاہدے پر تنقید کرنے والے اپنے قومی سلامتی کے سابق مشیر جان بولٹن کے بیان پر بھی بات کی اور کہا کہ ان کے سابق مشیر کے پاس یہ موقع موجود تھا کہ وہ اس امن معاہدے کو تکمیل تک پہنچاتے۔

مزید پڑھیں: افغان امن معاہدے کے اہم نکات

جان بولٹن نے گزشتہ روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹویٹ میں افغان طالبان سے امن معاہدے پر تنقید کی تھی اور معاہدے کو سابق امریکی صدر باراک اوباما کی پالیسی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ معاہدے کو عام امریکی عوام قبول نہیں کریں گے۔

جان بولٹن نے معاہدے پر تنقید کرتے ہوئے ٹوئٹ کی کہ طالبان سے امن معاہدہ کرنےکا مقصد داعش اور القاعدہ جیسی دہشت گرد تنظیموں کو غلط اشارہ بھیجنا ہے اور اس سے امریکا کے دشمنوں کو بھی غلط پیغام جائے گا۔

تاہم ڈونلڈ ٹرمپ نے ان کی تنقید کو بلاجواز قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر وہ ایک سال قبل چاہتے تو اس معاہدے کو پایہ تکمیل تک پہچاتے۔

واضح رہے کہ افغان طالبان اور امریکی حکومت کے درمیان طے پانے والا معاہدہ 4 مرکزی حصوں پر مشتمل ہے۔

ان مرکزی نکات کا پہلے حصے کے مطابق طالبان افغانستان کی سرزمین کسی بھی ایسی تنظیم، گروہ یا انفرادی شخص کو استعمال کرنے نہیں دیں گے جن سے امریکا یا اس کے اتحادیوں کو خطرہ ہوگا۔

معاہدے کے دوسرے حصے میں کہا گیا ہے کہ افغانستان سے امریکی اور اس کے اتحادی فوجیوں کا انخلا یقینی بنایا جائےگا۔

معاہدے کے تیسرے نکتے کے مطابق طالبان 10مارچ 2020 سے انٹرا افغان مذاکرات کا عمل شروع کریں گے۔

اسی طرح معاہدے کے چوتھے اور آخری مرکزی نکتے میں کہا گیا ہے کہ انٹرا افغان مذاکرات کے بعد افغانستان میں سیاسی عمل سے متعلق لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ گزشتہ برس افغان طالبان کے رہنماؤں اور ڈونلڈ ٹرمپ میں امریکی ریاست میری لینڈ میں واقع کیمپ ڈیوڈ میں ملاقات طے تھی تاہم قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کے استعفیٰ کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے وہ ملاقات منسوخ کردی تھی۔

ڈونلڈ ٹرمپ اور طالبان رہنماؤں کے درمیان ملاقات منسوخ ہونے کے بعد امریکا اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات بھی تعطل کا شکار ہوئے تھے تاہم پاکستان اور افغانستان کی حکومت کی کوششوں سے امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدے طے پاگیا۔