پاکستان

عورت مارچ نہیں اس پر پابندی کی بات کرنے والوں کی سوچ فحش ہے، حناجیلانی

وکیل و سماجی کارکن حنا جیلانی کا کہنا ہے کہ خواتین اس ملک کی اثاثہ ہیں اور ان کو اپنی رائے دینے کا پورا حق ہونا چاہیے۔

لاہور ہائی کورٹ میں رواں ماہ 24 فروری کو عورت مارچ کے خلاف جوڈیشل ایکٹیوزم کونسل کے چیئرمین اظہر صدیقی نے درخواست دائر کرتے ہوئے عدالت سے استدعا کی تھی کہ مارچ کو روکنے کا حکم دیا جائے۔

جس کے بعد درخواست پر سماعت کرتے ہوئے جج نے ریمارکس دیے تھے کہ عدالت ’اظہار رائے پر پابندی نہیں لگا سکتی‘۔

اس سماعت کے دوران عورت مارچ کے حق میں دلائل دینے والی سینئر وکیل و سماجی رہنما حنا جیلانی نے عدالت کو بتایا تھا کہ وہ صرف خواتین کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے عورت مارچ کرنا چاہتے ہیں۔

جبکہ عدالت کے باہر عورت مارچ پر تنقید کرنے والوں اور اس پر پابندی لگانے کا مطالبہ کرنے والوں کو بھی حنا جیلانی نے کرارا جواب دے دیا۔

میڈیا سے بات کرتے ہوئے حنا جیلانی کا کہنا تھا کہ 'ہم اس ملک کے رہنے والے ہیں، مختلف طبقہ فکر اور ہر عمر کے افراد اس ریلی کا حصہ بنتے ہیں، نوجوان نسل اس ریلی میں پلے کارڈز اور نعروں کی مدد سے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں'۔

عورت مارچ میں لوگوں کی جانب سے اٹھائے بینرز کو متنازع کہنے والوں پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'میرے ساتھ اس ریلی میں کئی لڑکیاں شریک ہوں گی، جہاں تک بات شرافت کی ہے تو ان جیسے درخواست گزار سے ہمیں سیکھنے کی ضرورت نہیں کہ شرافت کیا ہوتی ہے، ہم اپنے والدین سے سیکھ کر آتے ہیں، ہمیں اور نوجوان نسل کو اپنی سماجی اخلاقیات کا پتا ہے'۔

مزید پڑھیں: لاہور ہائی کورٹ: عورت مارچ رکوانے کی درخواست سماعت کیلئے منظور

حنا جیلانی کے مطابق 'یہ ان کی گندی سوچ ہے جو ہر چیز کو فحاش سمجھتے ہیں، یہ بچے ہیں ان کو اپنی بات کرنے کی اجازت ہے، یہ خواتین اس ملک کی اثاثہ ہیں، آپ کیا چاہتے ہیں یہ بچے اپنی بات نہ کرسکیں؟ وہ آواز نہ اٹھا سکیں اور ایسی گندی سوچ رکھنے والے لوگ ان کو فحاش کہیں؟'

خیال رہے کہ اس سال بھی خواتین کے حقوق سے متعلق کام کرنے والی مختلف تنظیموں نے لاہور کے علاوہ، اسلام آباد، راولپنڈی، ملتان، کراچی، حیدرآباد، سکھر، کوئٹہ اور پشاور سمیت ملک کے بڑے اور اہم شہروں میں 8 مارچ کو عالمی یوم خواتین کے موقع پر ’عورت مارچ‘ منعقد کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔

گزشتہ سال پاکستان کے مختلف شہروں میں ’عورت مارچ‘ منعقد ہوا تھا جس میں بڑی تعداد میں خواتین و لڑکیاں شامل ہوئی تھیں۔

کراچی سے لے کر لاہور اور اسلام آباد سے لے کر حیدرآباد تک ہونے والے عورت مارچ میں خواتین نے درجنوں منفرد نعروں کے بینر اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔