اسلام آباد اننگز کوئٹہ نے ٹاس جیتا اور حسبِ روایت پہلے باؤلنگ کو ترجیح دی۔ گیند بازی کا انتخاب سرفراز کا خاصہ بن چکا ہے اور نتائج بھی اس فیصلے کے حق میں دلالت کرتے ہیں۔ وکٹ پر تھوڑا گھاس ضرور موجود تھا تاہم اس سے باؤلرز کو کوئی مدد نہیں ملنے والی تھی۔ کل ایک ہائی اسکورنگ میچ متوقع تھا اور یہ توقع پوری ہوئی، کیونکہ بال بغیر نکھرے دکھائے سیدھا بلّے پر آرہی تھی۔
لیوک رونکی کل ایک بار پھر اٹیکنگ موڈ میں نظر آ رہے تھے۔ رونکی اس کام کے ماہر ہیں اور اکثر وہ کامیاب بھی ہوتے ہیں۔ میچ کی پہلی دونوں گیندیں چوکے اور چھکے کی صورت میں منتج ہوئیں، جس کے بعد سہیل خان نے خود کو سنبھالا۔
پھر دوسرے اوور کے لیے نسیم شاہ جب گیند بازی کرنے آئے تو رونکی نے ایک بار پھر پہلے سے سوچا ہوا شاٹ مارنا چاہا لیکن نسیم کا ہر طرح سے بہترین اور سیدھا یارکر ان کی لیگ اسٹمپ لے اُڑا۔ نسیم پاکستان کی تیز گیند بازی کی جادوئی نرسری سے ابھر کر سامنے آنے والے تازہ شاہکار ہیں۔
رونکی کو ان سے محتاط رہنا چاہیے۔ وہ ایک خاص ٹیلنٹ ہیں اور بلے باز کو اپنی گیند بازی کا احترام کرنے کے لیے مجبور کردیتے ہیں۔ اپنے اندر جوان وقار یونس کی جھلک رکھنے والے نسیم شاہ کو دیکھ کر دل اطمینان سے بھر جاتا ہے کہ چلو اس مار دھاڑ کے دور میں بلے بازوں کو تِگنی کا ناچ نچانے والا کوئی تو ہے۔
کوئٹہ کو نقصان پہنچ چکا تھا اور رونکی غلطی کا خمیازہ بھی بھگت چکے تھے۔ کولن منرو کوئٹہ کے خلاف پہلے میچ میں بغیر کوئی رن بنائے آؤٹ ہوگئے تھے لیکن کل وہ بڑی حد تک فارم میں نظر آئے۔ انہوں نے چند اچھے شاٹس لگا کر رونکی کے جلد آؤٹ ہونے کے نقصان کو کسی حد تک بھرنے کی کوشش کی مگر ان سے جو توقعات وابستہ کی گئی تھیں ان پر وہ پورا نہ اتر سکے۔
ڈیوڈ مالن سے بھی اسلام آباد والوں نے ٹورنامنٹ کے پہلے میچ جیسی پرفارمنس کی امیدیں باندھ رکھی تھیں جو پوری نہ ہوسکیں۔ ٹورنامنٹ کے پہلے میچ میں انہوں نے 65 رنز بنائے تھے لیکن ابتدائی میچ کے بعد سے ان کی کارکردگی زوال پذیر رہی ہے۔ کل کے میچ میں نسیم شاہ کی ایک اور خوبصورت گیند نے انہیں پویلین کی راہ دکھائی۔
تماشائیوں سے بھرے ہوئے اسٹیڈیم میں جب کوئی فاسٹ باؤلر کلین بولڈ کرتا ہے تو کھیل کا حُسن جیسے اپنے عروج کو پہنچ جاتا ہے۔ نسیم شاہ نے کل ایسا ہی کیا۔ اچھی لینتھ پر پڑنے والی اس گیند نے مڈل اسٹمپ کو ہوا میں اچھال دیا اور حاضرین و ناظرین کو بے اختیار اپنی سیٹوں پر کھڑا ہوکر داد دینے کے لیے مجبور کردیا۔
کولن منرو کی عمدہ اننگز کا خاتمہ حسنین نے کیا۔ کل کے میچ میں ایک قابلِ غور بات یہ بھی تھی کہ کوئٹہ کے باؤلرز نے زیادہ سے زیادہ لیگ اسٹمپ پر باؤلنگ کی، جس کا اسلام آباد نے فائدہ بھی اٹھایا گوکہ ایسی ہی ایک گیند کولن منرو کی پویلین واپس کا سبب بھی بنی۔ شاداب نے ایک بار پھر اپنے آپ کو پروموٹ کیا، اور وہ کولن انگرام اور آصف علی سے پہلے بیٹنگ کے لیے آئے۔
شاداب اور انگرام کے درمیان 76 رنز کی شاندار شراکت داری قائم ہوئی جس نے اسلام آباد کو میچ میں ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھا دیا۔ شاداب نے اپنی باری میں بہت ہی خوبصورت اسٹروکس لگائے۔ ان کا شاندار چھکا قابلِ دید تھا جسے انہوں نے فلک کرکے اسکوائر لیگ کے اوپر سے مارا۔ اس چھکے میں ویرات کوہلی کے اسٹائل کی جھلک نظر آئی۔ بطورِ کپتان انہوں نے ذمہ داری کا بھرپور مظاہرہ کیا اور دلیرانہ فیصلے بھی لیتے رہے، بلاشبہ پاکستان کو ایسے کھلاڑیوں اور کپتانوں کی اشد ضرورت ہے۔
کل کوئٹہ کی فیلڈنگ کافی غیر متاثرکن رہی اور متعدد کیچز ڈراپ کیے۔ میچ کے دوران ایک موقعے پر سرفراز کی کپتانی بھی کمزور دکھائی دی، خاص کر جب اعظم خان جیسے سست مزاج فیلڈر پوائنٹ پر کھڑے نظر آئے تو حیرت ہوئی کہ سرفراز نے انہیں کیا سوچ کر وہاں بھیجا ہے، کیونکہ اعظم خان کی مہربانی سے ہی شاداب ایک بار کیچ آؤٹ ہونے سے بچ گئے تھے۔
شاداب ایک اچھی اننگز کھیل کر جب بین کٹنگ کی گیند کو لیگ سائیڈ پر کھیلتے ہوئے آؤٹ ہوئے تب تک بہت دیر ہوچکی تھی اور ایسا لگ رہا تھا کہ اب اسلام آباد آرام سے 200 رنز بنالے گا لیکن آصف علی اپنی روش نہیں بدل پا رہے ہیں گوکہ انہوں نے 2 عدد چھکے ضرور رسید کیے لیکن اسکور کو زیادہ آگے نہیں لے جاسکے اور ٹائمل ملز کی عمدہ باؤلنگ کی نذر ہوگئے۔
لوگ ایک عرصے سے اس بات سے واقف ہیں کہ آصف علی ایک یا 2 چھکے لگا کر گیند کو ہوا میں ضرور اچھالیں گے، یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کا کھیل اب بہت محدود ہوچکا ہے، اور شاید ان کے پاس کچھ الگ کرنے کو بالکل بھی نہیں ہے۔ ٹائمل ملز جب 16واں اوور کرنے آئے تب اسلام آباد کا اسکور 15 اوورز کے اختتام پر 154 رنز تھا، لیکن ملز کے اسی اوور نے میچ کا رُخ موڑ دیا اور اسلام آباد نے اپنا سارا مومینٹم ہی کھو دیا۔
کوئٹہ اور اسلام آباد کے میچ میں واضح فرق کپتانی کا رہا
سرفراز نے کوئٹہ کو جتوادیا اور شاداب نے اسلام آباد کو ہروادیا
اس اوور میں آصف علی کی وکٹ سمیت صرف 3 رنز ہی بن سکے۔ فہیم اشرف بطور آل راؤنڈر اب تک مسلسل ناکامی سے دوچار نظر آئے ہیں۔ رن آؤٹ ہونے سے پہلے انہوں نے 4 رنز بنائے۔ جس طرح پہلے کہا کہ وکٹ میں باؤلرز کے لیے کوئی مدد نہیں تھی، لیکن اس کے باوجود نسیم شاہ کو کھیلنے میں بہت ہی مشکل پیش آرہی تھی۔ انہوں نے ملز کے پیدا کردہ دباؤ کو برقرار رکھا اور اپنے باقی ماندہ 2 اوورز میں صرف 8 رنز دیے۔ کولن انگرام کا ایک کیچ بھی ان کی گیند پر چھوٹا ورنہ ان کے کھاتے میں ایک اور وکٹ جُڑ جاتی۔ نسیم شاہ کی ایک اور خوبی یہ بھی ہے کہ وہ وکٹ ٹیکنگ ڈیلیوری کرتے ہیں اور کنٹرول بھی نہیں کھوتے۔ بہت سارے وکٹ ٹیکنگ باؤلرز وکٹوں کے حصول کی خاطر اکثر خراب گیند پھینک دیتے ہیں۔ یعنی شروع میں کپتان کو 2 قیمتی وکٹیں نکال کردیں اور جب اسکور روکنا تھا تب اسکور روک کر بھی دکھایا۔
ایک ایک کرکے جہاں سب آؤٹ ہو رہے تھے وہیں انگرام نے ایک شاندار باری کھیلی اور 63 رنز بناکر ناقابلِ شکست رہے۔ کوئٹہ نے آخری 5 اوورز میں شاندار کم بیک کیا، کیونکہ جہاں ایک طرح یہ واضح طور پر نظر آرہا تھا کہ اسلام آباد 200 رنز سے زیادہ اسکور کرلے گی، وہیں ان کو 190 رنز بھی نہیں بنانے دیے۔
ایک ہائی اسکورنگ میچ میں جہاں سب کو مار پڑ رہی تھی تو نسیم شاہ نے 4 اوورز میں صرف 23 رنز کے عوض 2 وکٹیں لیں وہ بھی اسلام آباد کے سب سے اچھے بلے بازوں کی۔
کوئٹہ اننگز کوئٹہ والوں نے نسبتاً محتاط آغاز کیا۔ واٹسن اس لیگ میں ابھی تک اپنی صلاحیتوں کے کمالات نہیں دکھا پائے ہیں۔ تاہم جیسن روئے ایک دو مشکل اننگ کے بعد واپس فارم میں آگئے ہیں اور انہوں نے عمدہ اسٹروکس لگانے کا سلسلہ شروع کیا۔
دوسری طرف رومان رئیس کل تقریباً ایک سال بعد مسابقتی کرکٹ میں واپسی کر رہے تھے، اس لیے انہیں بھی سیٹ ہونے میں کچھ وقت لگا۔ واٹسن خاموش کھڑے یہ سب دیکھ رہے تھے اور جب برداشت جواب دے گئی تو انہوں نے فہیم اشرف پر دھاوا بولنے کی کوشش کی لیکن اسی کوشش میں مڈ وکٹ پر جکڑے گئے۔
محمد موسیٰ سے کپتان شاداب نے مسلسل 3 اوورز کروائے اور پاور پلے ختم ہوتے ہی وہ خود باؤلنگ کے لیے آگئے۔ احمد شہزاد نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا اور 2 شاندار چھکے رسید کرکے ان کا استقبال کیا۔ مگر ہر بار کی طرح وہ اس بار بھی جذباتی ہوگئے اور ایک اوور میں 13 رنز سمیٹ لینے کے باوجود بھی ایک مرتبہ پھر کریز سے نکل کر شاداب پر حملہ آور ہونا چاہا لیکن اس بار شاداب کا پلّہ بھاری رہا، کیونکہ انہوں نے گیند کی رفتار بہت کم رکھی اور بلے باز کو چکمہ دینے میں کامیاب رہے۔
احمد شہزاد عمر اکمل کی کمی بالکل بھی محسوس نہیں ہونے دے رہے۔ احمد کے ساتھ ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ پی ایس ایل میں اچھا کھیل کر قومی ٹیم میں واپسی کا کیس مضبوط کرنا چاہتے ہیں اسی لیے بڑی اننگز کھیلنے کی کوشش میں انہوں نے رسک لینے کا فیصلہ کیا جو انہیں راس نہیں آیا۔