کورونا وائرس کے جسم پر اثرات ، بچاؤ کیسے ممکن ہے؟
کورونا وائرس کے جسم پر اثرات ، بچاﺅ کیسے ممکن ہے؟
پاکستان اور چین سمیت دنیا بھر میں 50 ممالک میں نوول کورونا وائرس سے 82 ہزار سے زائد افراد متاثر جبکہ 28 سو سے زائد ہلاک ہوچکے ہیں، جبکہ 32 ہزار سے زائد صحت یاب ہوچکے ہیں۔
اس وائرس سے ہونے والا مرض یعنی کووڈ 19 زیادہ جان لیوا نہیں بلکہ صحت یابی کی شرح زیادہ ہے، تاہم زیادہ عمر یا پہلے سے کسی بیماری کے شکار افراد میں اس کی شدت زیادہ ہوسکتی ہے اور ہلاکتیں بھی زیادہ تر ایسے لوگوں کی ہوئی ہیں، جن کی عمر زیادہ تھی یا پہلے سے ہی کسی بیماری کا شکار تھے۔
اس وائرس سے متاثر مریض میں سب سے پہلے بخار ظاہر ہوتا ہے اور یہ نوول کورونا وائرس کی سب سے عام علامت ہے۔
ووہان یونیورسٹی کے زونگنان ہاسپٹل کی ایک حالیہ تحقیق میں 140 کے قریب مریضوں کا جائزہ لینے کے بعد اس وائرس سے متعلق علامات کے عمومی رجحان کی شناخت کی گئی۔
نتائج سے معلوم ہوا کہ 99 فیصد مریضوں کو تیز بخار کا سامنا ہوا، جبکہ 50 فیصد سے زائد کو تھکاوٹ اور خشک کھانسی، ایک تہائی کو مسلز میں درد اور سانس لینے میں مشکل ہوئی۔
چائنیئز سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول کی ایک الگ تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ اس نئے کورونا وائرس کے 80 فیصد کیسز کی شدت معتدل ہوتی ہے، 15 فیصد میں شدید جبکہ 5 فیصد سنگین حد تک بیمار ہوجاتے ہیں۔
مریضوں میں یہ علامات دن بدن کس طرح آگے بڑھتی ہیں؟
پہلا دن : مریض کو بخار ہوتا ہے، اس کے علاوہ تھکاوٹ، مسلز میں درد اور خشک کھانسی کی شکایات کا امکان بھی ہوتا ہے، بہت کم افراد کو ایک یا 2 دن پہلے ہیضے یا قے کی شکایت بھی ہوسکتی ہے۔
5واں دن : اس مرحلے میں مریض کو سانس لینے میں مشکل کا سامنا ہوسکتا ہے، خصوصاً اگر وہ معمر ہے یا پہلے سے کسی بیماری کا سامنا کررہا ہے۔
8واں دن : اتنے دن میں سنگین کیسز والے 15 فیصد مریضوں کے پھیپھڑوں میں مواد جمنے لگتا ہے جس کی وجہ سے پھیپھڑوں میں ہوا بھرنا مشکل ہوتا ہے اور دوران خون میں آکسیجن کی کمی ہونے لگتی ہے، اے آر ڈی ایس نامی یہ عارضہ اکثر جان لیوا ثابت ہوتا ہے جبکہ نمونیا ہونے کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔
10واں دن: اگر مریض کی علامات کی شدت بڑھ رہی ہو، تو یہ وہ وقت ہوتا ہے جب مریض کو ممکنہ طور پر آئی سی یو میں داخل کرلیا جاتا ہے، ایسے مریضوں کو پیٹ میں زیادہ درد اور کھانے کی خواہش ختم جیسی کیفیات کا سامنا ہوسکتا ہے، تاہم بہت کم تعداد میں لوگوں کی ہلاکت ہوتی ہے، کیونکہ اس وقت نوول کورونا وائرس کے شکار افراد میں اموات کی شرح 2 فیصد کے قریب ہے۔
17واں دن: یہ وہ دورانیہ ہے جب اوسطاً وائرس کے شکار افراد صحت یاب ہوجاتے ہیں یا ہونے لگتے ہیں اور انہیں ہسپتال سے گھر بھیج دیا جاتا ہے۔
یہ خیال رہے کہ ضروری نہیں کہ وائرس کی اولین علامات اسی وقت سامنے آجائیں جب کوئی اس کا شکار ہو، درحقیقت علامات سامنے آنے کا دورانیہ ایک سے 14 دن تک ہوتا ہے، جس کے دوران مریض خود کو صحت مند سمجھ کر دیگر افراد کو بھی اس وائرس سے متاثر کرسکتا ہے۔
مگر جب علامات ظاہر ہوتی ہیں تو یہ نمونیا سے ملتی جلتی ہوتی ہیں مگر شدت زیادہ ہوتی ہے کیونکہ نمونیا عموماً بہت تیزی سے بڑھتا نہیں۔
وائرس کس طرح لوگوں میں منتقل ہوتا ہے؟
ایسا مانا جاتا ہے کہ یہ وائرس چمگادڑ سے پہلے کسی ممالیہ جاندار ممکنہ طور پر پینگولین میں منتقل ہوا اور پھر ووہان میں انسانوں میں پہنچ گیا، جس کے بعد سے یہ ایک سے دوسرے فرد میں منتقل ہوتا ہے۔
جب متاثرہ فرد کھانستا یا چھینکتا ہے تو منہ سے ننھے ذرات کا اخراج ہوتا ہے جس میں وائرس موجود ہوتا ہے، جو ناک، آنکھوں یا منہ کے ذریعے دوسرے فرد میں منتقل ہوجاتا ہے۔
درحقیقت سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ یہ وائرس فلو کی طرح ایک سے دوسرے فرد کو متاثر کرسکتا ہے اور اسی وجہ سے ممکنہ طور پر بہت تیزی سے پھیل بھی رہا ہے اور چونکہ ایسے کیسز بھی سامنے آچکے ہیں جن میں متاثرہ فرد خود کو صحت مند تصور کرتے ہوئے وائرس کو دیگر تک منتقل کررہا تھا، تو اس کی روک تھام سائنسدانوں کے لیے بڑا چیلنج ہے۔
چائنیز سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن کی ایک تحقیق میں یہ امکان بھی ظاہر کیا گیا تھا کہ جسم سے خارج ہونے والے فضلے سے بھی یہ وائرس دیگر افراد میں منتقل ہوسکتا ہے کیونکہ کچھ مریضوں کے فضلے میں اس وائرس کو دریافت کیا گیا تھا، مگر فی الحال یہ یقین سے کہنا مشکل ہے کہ واقعی اس سے وائرس ایک سے دوسرے فرد میں منتقل ہوسکتا ہے یا نہیں اور مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
بنیادی حفاظتی اقدامات
عالمی ادارہ صحت نے اس وائرس سے محفوظ رکھنے کے لیے چند اقدامات تجویز کیے ہیں جو درج ذیل ہیں۔
اپنے ہاتھوں کو زیادہ دھونا عادت بنائیں
اپنے ہاتھوں کو اکثر اور اچھے طریقے سے صابن اور پانی سے دھونا عادت بنائیں، کیونکہ اس سے ہاتھ کی سطح پر موجود وائرسز مرنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے اور آپ کو کورونا وائرس سمیت متعدد امراض سے تحفظ مل سکتا ہے۔
ہاتھ کس وقت دھوئیں؟
کھانسنے یا چھینکنے والے افراد سے دوری
اگر آپ بیمار ہیں تو دوسروں کو اس طرح بچائیں
مزید احتیاطی تدابیر
آنکھوں، ناک اور منہ کو چھونے سے گریز
آپ کے ہاتھ متعدد چیزوں کو چھوتے ہیں اور وائرس سے بھرجاتے ہیں، ہاتھوں سے یہ وائرس آنکھوں، ناک یا منہ کے ذریعے جسم میں منتقل ہوسکتا ہے۔
کھانے پینے میں احتیاط
گوشت کو کاٹنے کے لیے الگ کٹنگ بورڈ اور چھریوں کا استعمال کریں، کچی اور پکی ہوئی غذا کو چھونے کے بعد ہاتھوں کو دھوئیں، تاہم خیال رہے کہ وبا سے متاثرہ علاقوں میں بھی گوشت کھانا محفوظ ہے، اگر وہ اچھی طرح اور مناسب طریقے سے پکایا جائے۔