بھارت کا امریکا پر دہلی فسادات کو سیاسی رنگ دینے کا الزام
بھارت نے امریکی کمیشن پر دارالحکومت نئی دہلی میں ہونے والے نسلی فسادات کو سیاسی رنگ دینے کا الزام عائد کیا ہے جہاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ بھارت کے دوران ہونے والے فسادات میں کم از کم 32 افراد ہلاک اور 200 سے زائد زخمی ہوئے۔
دہلی میں گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران ہندوؤں اور مسلمانوں میں ہونے والے ان بدترین فسادات میں منظم گروپوں نے مساجد، مزاروں، دکانوں اور مسلمانوں کی دیگر املاک کو نذر آتش کیا۔
مزید پڑھیں: دہلی میں مذہبی فسادات: ہلاکتوں کی تعداد 27 ہوگئی
بدھ کو عالمی مذہبی آزادی کے امریکی کمیشن نے اپنے بیان میں نئی دہلی کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ دہلی میں ہونے والے تشدد اور مسلمانوں پر ہونے والے حملوں کو روکنے کے لیے پولیس کی جانب سے مداخلت نہ کرنے کی خبریں انتہائی پریشان کن ہیں۔
کمشنر انوریما بھرگاوا نے کہا کہ حکومت شہریوں کے تحفظ کے اپنے بنیادی کام میں بری طرح ناکام رہی۔
تاہم بھارت کی وزارت خارجہ نے امریکی کمیشن کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ رپورٹ حقائق کے منافی اور گمراہ کن ہے اور اس کا مقصد معاملے کو سیاسی رنگ دینا ہے۔
دوسری جانب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے فسادات کے تین دن بعد محض ایک ٹوئٹ پر اکتفا کرتے ہوئے روایتی بیان جاری کرتے ہوئے امن اور یکجہتی برقرار رکھنے کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ میں دہلی میں اپنے بہن بھائیوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ امن اور بھائی چارے کو یقینی بنائیں، سکون اور معمولات زندگی کو جلد از جلد بحال کرنا انتہائی اہم ہے۔
بھارتی وزیر اعظم کے اس بیان پر جنوب و وسط ایشیائی ممالک کے امور کی امریکی سیکریٹری خارجہ نے نئی دہلی میں ہونے والے فسادات میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں سے تعزیت کی۔
انہوں نے بھارتی وزیر اعظم کے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے تمام فریقین سے مطالبہ کیا کہ وہ تشدد سے باز رہتے ہوئے امن کا قیام یقینی بنائیں۔
جمعرات کو ہائی وے سے متصل مسلم اکثریتی علاقے شاند باغ میں نذر آتش کی گئی دکانیں اور سرکاری گاڑیاں راکھ کا منظر پیش کر رہی تھیں جو حکومتی سرپرستی میں ہونے والے ان پرتشدد واقعات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کا دورہ بھارت: شہریت قانون کے خلاف احتجاج، پولیس اہلکار سمیت 4 ہلاک
مسلمان آبادیوں پر دھاوا بولنے والے یہ شرپسند ہندو مذہبی نعرے لگا رہے تھے اور ان پرتشدد واقعات میں مسلمان آبادیوں کو دن دہاڑے نشانہ بنایا گیا، ایسا محسوس ہوتا تھا کہ انہیں ان فسادات میں کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے کیونکہ بظاہر پولیس بھی اس تمام تر کارروائی میں ان کی آلہ کار بنی ہوئی تھی۔
ان فسادات سے چند گھنٹوں قبل حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سرکردہ رہنما کپل مشرا نے شہریت قانون کے مخالفین کے خلاف ریلی نکالی اور پولیس کو الٹی میٹم جاری کیا کہ وہ فوری طور پر مظاہرین سے ان مقامات کو خالی کرائے۔
انہوں نے بیان دیا تھا کہ اگر پولیس نے مظاہرین سے ان مقامات کو خالی نہ کرایا تو وہ اور ان کے حامی خود یہ کام کریں گے۔
بھارتی عوام خصوصاً اپوزیشن جماعتوں نے الزام عائد کیا ہے کہ کپل مشرا نے ان فسادات کو ہوا دی اور اس کی سرپرستی سے منظم گروہوں نے مسلم اکثریتی علاقوں کو نشانہ بنایا۔
خیال رہے کہ بھارت میں متنازع شہریت قانون پر احتجاج کافی وقت سے جاری ہے تاہم بھارتی دارالحکومت میں یہ فسادات ایسے وقت میں سامنے آئے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھارت کے دورے پر آئے ہوئے تھے۔
مزید پڑھیں: نئی دہلی میں مذہبی فسادات پر بولی وڈ شخصیات کا اظہار افسوس
دورے کے دوران بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ انہوں نے پرتشدد کارروائیوں کے بارے میں سنا ہے لیکن اس سلسلے میں بھارتی وزیراعظم نے بات نہیں کی۔
تمام صورتحال پر برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے رپورٹرز نے ہجوم کو پتھر، پائپس اور لاٹھیاں برساتے دیکھا جبکہ اس دوران آگ لگانے اور لوٹ مار کے بھی واقعات رونما ہوئے۔
دہلی فسادات: مقدمے کی سماعت کرنے والے جج کا تبادلہ
بھارتی سپریم کورٹ نے دہلی میں فسادات کے مقدمے کی سماعت کرنے والے نئی دہلی ہائی کورٹ کے جج جسٹس ایس مرلی دھر کا پانجاب اور ہریانہ ٹرانسفر کردیا ہے۔
مذکورہ جج نے مرکز کے ساتھ ساتھ نئی دہلی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ منافرت پر مبنی تقریریں کرنے والے بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماؤں کے خلاف ایف آئی آر درج نہ کرنے پر پولیس پر برہمی کا اظہار کیا تھا۔
بھارتی وزارت قانون نے جج کے ٹرانسفر کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے جج کے ٹرانسفر کے آرڈر 12فروری کو دیئے تھے۔