ٹین ایجر بچوں کی ضد اور باغیانہ رویوں سے کیسے بچا جائے؟
'بیٹا اب نہ میری سنتا ہے نہ اپنی ماں کی بلکہ بد تمیزی پر اتر آتا ہے, آوارہ گردی، وقت ضائع کرنے اور لڑکیوں کے پیچھے بھاگنے کے علاوہ اسے کچھ سوجھتا ہی نہیں،' ایک ٹین ایجر لڑکے کے والد نے بیٹے کی شکایت کرتے ہوئے کاؤنسلنگ ماہر کو بتایا۔
ٹین ایجر لڑکے کے والد صاحب کے بالوں سے سفیدی جھلکنا شروع ہو گئی تھی اور وہ اپنی بڑھتی عمر اور بیٹے کے بگڑتے رویے سے پریشان تھے اور اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے بچوں کے رویوں سے متعلق کاؤنسلنگ کرنے والے شخص کے پاس پہنچے ہوئے تھے۔
کاؤنسلر نے پوچھا کہ آپ کی بیگم یعنی لڑکے کی والدہ کی گھر کے کام کے علاوہ اور کوئی مصروفیات ہیں؟ جن پر انہوں نے بتایا کہ وہ سوشل ورکر ہیں، یوں والد صاحب کا وقت نوکری میں اور والدہ کا وقت سماجی معاملات میں گزرتا رہا اور بیٹے کو اپنے جذبات، مشکلات اور ایشوز کی کمیونیکیشن کے لیے دونوں میں سے کوئی میسر نہیں تھا، دوست، میڈیا اور موبائل فون ہی اس کی جائے پناہ تھے اور وہی رفتہ رفتہ والدین کا متبادل بھی بن گئے، جس وجہ سے اب بیٹے کے باغیانہ رویے نے دونوں والدین کو پریشان کر دیا ہے اور وہ اس مشکل سے نکلنے کی ہر ممکن کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔