پاکستان

وزیر اعظم کو پہلے ہی کہہ دیا تھا جسٹس عیسیٰ کیس نہیں لڑوں گا، اٹارنی جنرل

کیس میں مجھ سے وکیل کے لیے رابطہ کیا گیا تھا جس کی وجہ سے حکومت کا مقدمہ لڑنے سے انکار کیا، خالد جاوید
|

نئے اٹارنی جنرل برائے پاکستان خالد جاوید خان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی تعیناتی سے قبل ہی وزیر اعظم کو آگاہ کردیا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کیس نہیں لڑوں گا۔

سپریم کورٹ میں صحافیوں سے ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ کے صحافی یہاں کا اثاثہ ہیں، یہاں جو ہوتا ہے اس کی میڈیا کے ذریعے ہی معلومات ملتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں 'وفاقی حکومت کا قانونی نمائندہ ہوں اور اللہ نے مجھے میری بساط سے زیادہ امتحان میں ڈالا ہے'۔

خالد جاوید خان کا کہنا تھا کہ 'میڈیا ہماری غلطیوں کی تصیح کرے، غلطیاں اس لیے ہوتی ہیں کیونکہ ہم انسان ہے، ہم کسی بات پر غلط ہوئے تو اپنی تصیح کریں گے اور تصیح نہ کریں تو ہماری غلطی آپ عوام کو بتائیں'۔

مزید پڑھیں: لاافسران سے متعلق خبر پر مناسب وضاحت جاری کریں، اٹارنی جنرل کا وزیرقانون کو خط

ان کا کہنا تھا کہ 'اٹارنی جنرل آفس اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے تیار ہے، خوش قسمتی سے یہ اس وقت سامنے آیا جب ایک امتحان کا دور ہے'۔

جسٹس عیسیٰ کے کیس سے متعلق نئے اٹارنی جنرل نے کہا کہ انہوں نے 'وزیر اعظم کو واضح بتا دیا تھا کہ ریفرنس بہت بڑا کیس ہے (لہٰذا) جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس نہیں لڑوں گا'۔

انہوں نے وضاحت دی کہ 'مجھے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں وکیل کے لیے رابطہ کیا گیا تھا، اس لیے حکومت کا مقدمہ لڑنے سے انکار کیا'۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'مجھے لگتا تھا کہ میری بات پر وزیر اعظم مجھے اٹارنی جنرل نہیں بنائیں گے تاہم انہوں نے میرا ہی انتخاب کیا کیونکہ میں پروفیشنل ہوں'۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ 'وزیر اعظم نے مجھے شاید اس لیے منتخب کیا کیونکہ میں پروفیشنل ہوں اور میری کسی کے ساتھ سیاسی وابستگی نہیں ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'وزیر اعظم کو مجھ سے جو توقعات ہیں وہی عدلیہ کو بھی ہیں، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ 'عزت واحد چیز ہے جو آنی جانی نہیں، میں عزت کے لیے یہاں آیا ہو'۔

خالد جاوید کا کہنا تھا کہ 'حکومت کے نیشنل سیکیورٹی اور ریونیو کیسز پر بھر پور توجہ ہوگی'۔

یہ بھی پڑھیں: فروغ نسیم نے انور منصور خان سے معافی مانگ لی

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کی ترجیحات میں پاکستان کے اہم عالمی مقدمات ہیں، ساتھ ہی انہوں نے ریکوڈک کیس کو ملک کی سلامتی کے لیے اہم قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ریکوڈک کیس کے بعد ہمارے اثاثوں پر تلوار لٹک رہی ہے'۔

ریکوڈک کیس کے حوالے سے مزید بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'کوئی چیز ناممکنات سے نہیں ہے، ہماری کوشش ہے کہ ریکوڈک کیس میں حکم امتناع لیا جائے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اس وقت مقصد یہ ہے کہ آئندہ کے بحران سے کیسے بچا جائے، میری کوشش ہے کہ ریکوڈک کیس کے نقصان کو کنڑول کیسے کرنا ہے'۔

دوران گفتگو نئے اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ 'وزیر اعظم کی مدد سے اٹارنی جنرل آفس کو آئین کے مطابق قائم کروں گا اور کوشش کروں گا کہ جب عہدہ چھوڑ کر جاؤں تو اس آفس کا وقار بلند ہو'۔

انہوں بے بتایا کہ 'وزیر اعظم عمران خان نے مجھے مکمل آزادی دی ہے اور اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا ہے'۔

ان کے والد این ڈی خان کی سیاسی وابستگی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'سیاسی وابستگی میرے والد کی تھی، بھٹو یا مشرف کا کیس میرے سامنے آیا تو پوری دیانت کے ساتھ اس کو ہینڈل کروں گا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اگر کسی مقدمہ میں میرے والد بھی سامنے ہوئے تو اپنا کیس لڑوں گا'۔

وزیر قانون فروغ نسیم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'وزیر قانون سے پرانا دوستی کا رشتہ ہے، وہ میرے بھائی ہیں اور ہم دونوں برابر ہیں'۔

لا افسران کے حوالے سے وزیر قانون کو لکھے گئے خط کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ 'وزیر قانون کو خط خبر کی تردید کے لیے لکھا تھا، نہیں چاہتا میرے کام میں کوئی مداخلت ہو'۔

انہوں نے بتایا کہ 'اٹارنی جنرل آفس کی آزادی میری پہلی شرط تھی، ہماری بڑی اچھی ورکنگ ریلیشن شپ ہوگی'۔

خیال رہے کہ گزشتہ دنوں اٹارنی جنرل نے وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کو خط کے ذریعے لا افسران کی تعیناتی کے حوالے سے شائع خبر کو ابہام کا باعث قرار دیتے ہوئے مناسب وضاحت جاری کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

دہلی میں مذہبی فسادات: ہلاکتوں کی تعداد 27 ہوگئی

کوئٹہ، تفتان کے درمیان ٹرین سروس غیر معینہ مدت تک کے لیے بند

کابینہ نے صحافیوں کے تحفظ کا بل منظوری سے روک دیا