نقطہ نظر

پی ایس ایل کا پہلا مرحلہ: بہت کچھ اچھا رہا، مگر سب کچھ نہیں!

4 دنوں پر مشتمل یہ پہلا مرحلہ ایک مکمل پیکج ثابت ہوا جو پاکستان اور پاکستان کرکٹ کے لیے ایک بڑی زبردست خبر ہے۔

پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کا پہلا مرحلہ گزر گیا، جس نے شائقینِ کرکٹ کو ہر وہ عنصر فراہم کیا جو وہ کرکٹ اور خاص کر ٹی20 کرکٹ میں دیکھنا چاہتے ہیں، پھر بات ہو سنسنی کی، کانٹے دار مقابلوں کی، بڑے چھکوں کی یا پھر انٹرٹینمنٹ کی۔

4 دنوں پر مشتمل یہ پہلا مرحلہ ایک مکمل پیکج ثابت ہوا جو پاکستان اور پاکستان کرکٹ کے لیے ایک بڑی زبردست خبر ہے۔ اس مرحلے میں 2 شہروں کراچی اور لاہور میں کُل 7 میچ کھیلے گئے، جس کے نتیجے میں اسلام آباد یونائیٹڈ اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز 2، 2 فتوحات کے بعد کامیاب ترین ٹیموں میں شامل ہیں۔

قارئین کی دلچسپی کے لیے ہم پاکستان سپر لیگ کے اس پہلے ہفتے کا مختصر جائزہ پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ان عوامل پر بھی روشنی ڈال رہے ہیں جن پر اگر نظرثانی کرلی جائے تو شائقین اس ٹورنامنٹ سے مزید بہتر طور پر لطف اندوز ہوسکیں گے۔

ڈیرن سیمی کے لیے پاکستان کی اعزازی شہریت

اس لیگ کے شروع ہوتے ہی پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے یہ اعلان کیا کہ حکومتِ پاکستان نے پشاور زلمی کے کپتان ڈیرن سیمی کو پاکستان کی اعزازی شہریت اور نشانِ پاکستان دینے کا فیصلہ کرلیا ہے اور ان کو 23 مارچ کو یومِ پاکستان کے موقع پر ان اعزازات سے نوازا جائے گا۔

گزشتہ چند سالوں میں جس انداز سے ڈیرن سیمی نے پاکستان کے تشخص کو اجاگر کرنے کے لیے کوششیں کیں ہیں، ان کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان کی طرف سے یہ بہت ہی احسن قدم ہے۔

میچوں کے نظام الاوقات

اس پہلے مرحلے میں میچ شروع ہونے کے وقت سے متعلق کافی شکایات پائی جارہی ہیں۔ کیونکہ جس دن 2 میچ ہورہے ہیں اس دن پہلا میچ دوپہر 2 بجے رکھا جارہا ہے۔

ایسا لگ رہا ہے کہ 2 بجے کے وقت کا انتخاب کرنے سے پہلے اس کے منفی پہلوؤں پر شاید غور نہیں کیا گیا، بلکہ جو کچھ بھی براڈکاسٹر نے کہا، وہ من و عن مان لیا گیا۔

معاملہ یہ ہے کہ 2 بجے میچ کا مطلب یہ ہوا کہ پہنچنے والوں کو 12 بجے تک ہر حال میں اسٹیڈیم پہنچنا ہوگا، یعنی جن جن لوگوں کو بھی دن کا یہ پہلا میچ دیکھنا ہو، وہ اپنے دن بھر کے تمام تر کاموں کو چھوڑ کر بس صبح ہی صبح میدان کے لیے روانہ ہوجائیں۔

یعنی وہ تمام لوگ جو دفتر جاتے ہیں، انہیں ان میچوں کے لیے چھٹی کرنی پڑے، کیونکہ چھٹی کیے بغیر تو اس وقت تک اسٹیڈیم پہنچنا ممکن ہی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دن کے میچوں میں میدان میں لوگوں کی تعداد کم دیکھنے کو مل رہی ہے۔ لیکن اگر یہی وقت 4 بجے کرلیا جائے تو نہ صرف دفتر جانے والے آدھے دن کی چھٹی لے کر اسٹیڈیم پہنچ سکتے ہیں، بلکہ جو افراد گھر سے آرہے ہیں انہیں بھی موسم کی شدت سے بچنے میں آسانی ہوگی، اور یوں جہاں رات کے وقت میدان ہاؤس فل جارہے ہیں، وہیں دن کے وقت بھی لوگوں کی بڑی تعداد باآسانی اسٹیڈیم پہنچ سکتی ہے۔

میری کرکٹ بورڈ سے گزارش ہے کہ وہ دوپہر میں کھیلے جانے والے میچوں کے وقت سے متعلق اگر ممکن ہو تو ضرور نظرِ ثانی کرے۔

کھلاڑیوں کی کارکردگی

پاکستان سپر لیگ پاکستان کا وہ واحد ڈومیسٹک ٹورنامنٹ ہے جس میں کھلاڑیوں کی کارکردگی پر مقامی کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی ناقدین اور تجزیہ کاروں کی بھی نظریں ہوتی ہے۔ ماضی کے واقعات یہ بتاتے ہیں کہ اس لیگ میں اچھی پرفارمنس دینے والے کھلاڑیوں کے لیے قومی ٹیم تک پہنچنا نسبتاً آسان ہوجاتا ہے۔

تو اب تک کن کن کھلاڑیوں کی کارکردگی زبردست رہی، آئیے دیکھتے ہیں۔

کامران اکمل

پاکستان سپر لیگ کے شہزادے کامران اکمل نے جس طرح کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی باؤلنگ کو تہس نہس کیا وہ ایک قابلِ دید منظر تھا۔ اس میچ میں سنچری اسکور کرنے کے لیے کامران اکمل پاکستان سپر لیگ میں 3 سنچریاں اسکور کرنے والے پہلے کھلاڑی بن چکے ہیں۔ اگر آنے والے میچوں میں بھی ان کا بلا اسی انداز سے زنز اگلتا رہا تو پشاور زلمی کو ٹورنامنٹ جیتنے سے روکنا مخالفین کے لیے مشکل ہوجائے گا۔

ذیشان اشرف

ملتان سلطان کے نوجوان وکٹ کیپر بیٹسمین ذیشان اشرف نے اس ٹورنامنٹ میں اسلام آباد یونائیٹڈ کے خلاف ایک مشکل مرحلے میں شاندار بیٹنگ کرکے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ مقامی سطح پر ذیشان اشرف کو ایک ٹیلنٹڈ کھلاڑی کی حیثیت سے مانا جاتا ہے، اور ملتان سلطانز کے مالک علی ترین بھی ذیشان کی ان صلاحیتوں کے دلدادہ ہیں۔

یہ ٹورنامنٹ ذیشان اشرف کے لیے بہت اہم ہے کیونکہ سرفراز احمد کے جانے اور محمد رضوان کی خراب فارم کی وجہ سے قومی کرکٹ ٹیم ٹی20 فارمیٹ کے لیے ایک وکٹ کیپر بیٹسمین کی تلاش میں ہے۔ اگر ذیشان نے آنے والے میچوں میں تسلسل سے اسکور کیا تو قومی ٹیم کے لیے منتخب ہونے والوں کی فہرست میں ان کا نام شامل ہونے کا پورا پورا امکان ہے۔

شاداب خان

قومی ٹیم کے لیے شاداب خان کی کارکردگی کچھ عرصے سے مسلسل غیر معیاری رہی ہے، لیکن لاہور قلندرز کیخلاف پہلے انہوں نے اپنی باؤلنگ کا جادو جگایا اور اس کے بعد جب ان کی ٹیم مشکل میں تھی تو وہ ایک مردِ بحران کی طرح خود بیٹنگ کرنے آگئے۔ اس میچ میں شاداب کی شاندار باؤلنگ نے ان کے فارم میں واپس آنے کا عندیہ دے دیا جو پاکستان کرکٹ ٹیم کے لیے ایک خوش آئند بات ہے۔

اس کے علاوہ مشکل وقت میں بیٹنگ کے لیے آنا ثابت کرتا ہے کہ وہ ایک بہادر کھلاڑی اور کپتان ہیں، جو مشکل صورتحال سے گھبراتے نہیں بلکہ اس کا سامنا کرتے ہیں۔

محمد حفیظ

محمد حفیظ نے بھی لاہور قلندرز کی جانب سے اسلام آباد یونائیٹڈ کیخلاف ایک شاندار اننگز کھیل کر اپنی فارم کی بحالی سے متعلق اشارے دے دیے۔ حفیظ جیسے کھلاڑی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس ٹورنامنٹ میں تسلسل کے ساتھ بڑی اننگز کھیلیں تاکہ ان کا اعتماد اور ان کی فارم مکمل طور پر بحال ہوجائے۔

پاکستان سپر لیگ کا سرپرائز

پاکستان سپر لیگ میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے کوچ معین خان کے بیٹے اعظم خان بھی ٹیم کا حصہ ہیں۔ اعظم کے بارے میں خیال یہی تھا کہ گزشتہ لیگ کی طرح اس مرتبہ بھی وہ زیادہ وقت ڈگ آؤٹ میں ہی گزاریں گے لیکن ٹورنامنٹ شروع ہونے سے پہلے کرکٹ بورڈ کی جانب سے عمر اکمل سے متعلق فیصلے نے اعظم خان کو اپنا کردار ادا کرنے کا موقع دیا، جسے انہوں نے دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا۔

اس لیگ سے پہلے معین خان نے دیگر کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ اعظم خان کو بھی اس فہرست میں شامل کیا جن کی کارکردگی کا ٹورنامنٹ پر نمایاں اثر ہوگا۔ کافی لوگوں نے معین کے اس بیان کو ایک بھونڈا مذاق سمجھ کر ترک کردیا۔

لیکن کرکٹ کے بارے میں ایک کہاوت ہے کہ Cricket is a game of glorious uncertainities اور اعظم خان کے معاملے میں یہ کہاوت بالکل درست ثابت ہو رہی ہے۔

اعظم خان جب ٹورنامنٹ کے افتتاحی میچ میں بیٹنگ کے لیے میدان میں آئے تو ان کی ٹیم شدید دباؤ میں تھی لیکن انہوں نے شاندار بیٹنگ کرکے یہ دباؤ ختم کیا اور اپنی ٹیم کو جیت کی راہ پر ڈال دیا۔ عام خیال یہ تھا کہ بس ایک اننگ ہوگئی لیکن اس نوجوان نے ایک مرتبہ پھر اپنے ناقدین کو اس وقت بھرپور جواب دیا جب اتوار کو کراچی کنگز کیخلاف میچ میں انہوں نے دباؤ میں ایک اور شاندار فتح گر اننگز کھیلی۔

یہ 2 اننگز اعظم خان کے لیے بہت اہم ہیں۔ اعظم کو ان کے وزن اور جسامت کی وجہ سے ہدفِ تنقید بنایا جاتا ہے۔ ان پر تنقید کرنے والوں کو یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ اگر کھلاڑی میں صلاحیت ہو تو وزن یا موٹاپا اس کی راہ کی رکاوٹ نہیں بن سکتا۔ انگلینڈ کے سابق کپتان مائیگ گیٹنگ اور سری لنکا کے سابق کپتان ارجنا راناٹنگے ایسی مثالیں ہیں جو بھاری جسامت کہ باوجود اپنی ٹیم کے لیے ایسے شاندار کارنامے انجام دے چکے ہیں جن کی نظیر نہیں ملتی۔ امید ہے اعظم خان مستقبل میں محنت جاری رکھیں گے اور اپنے کھیل اور اپنی فٹنس میں نکھار لانے کے اقدامات کرتے رہیں گے۔

پہلے بیٹنگ کرنے والی ٹیموں کی شکست کا راز

اب تک ایک میچ کے علاوہ تمام ہی میچوں میں پہلے بیٹنگ کرنے والی ٹیموں کو شکست کا سامنا کرنا پڑتا۔ جو ایک ٹیم یعنی کراچی کنگز پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے فتحیاب ہوئی، اس کی وجہ 200 رنز سے زیادہ کا ہدف تھا۔

لاہور کے قذافی اسٹڈیم میں رات کو پڑنے والی اوس کی وجہ سے باؤلرز کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہاں بھی پاکستان کرکٹ بورڈ کو جلد فیصلہ کرنا ہوگا کیونکہ شائقین اور کرکٹ کے چاہنے والے یہ نہیں چاہتے کہ میچ کے نتیجے پر کھلاڑیوں کی کارکردگی سے زیادہ ٹاس کے اثرات مرتب ہوں۔

میرا مشورہ یہ ہے کہ eliminator اور ٹورنامنٹ کا فائنل شام 7 بجے کے بجائے شام 6 بجے شروع کیا جائے تاکہ اوس کے مسئلہ کا سدِباب ہوسکے اور ٹاس کا جیتنا یا ہارنا میچ کے نتیجے پر اثرانداز نہیں ہوسکے۔

اردو کمنٹری کا جنازہ

پاکستان سپر لیگ کے میچوں کے دوران اردو کمنٹری کا آغاز ایک زبردست اقدام ہے۔ لیکن قابلِ افسوس عمل یہ ہے کہ یہ اردو کمنٹری انتہا درجے کی غیر معیاری ہے، اور ایسا لگ رہا ہے جیسے محض اس کو وقت گزاری جتنی اہمیت دی جارہی ہے۔ چونکہ ابھی تو ٹورنامنت کا بڑا حصہ باقی ہے، اس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ انگریزی کمنٹری کرنے والوں کے بجائے اردو کے لیے اس فن سے آشنا افراد کو ہی مائیک کے سامنے لایا جائے، اگر یہ ممکن نہیں تو پھر اس تکلیف دے سلسلے کو بند کردیا جائے۔

پاکستان کے کم معروف ہیروز کا پرچار

پاکستان کرکٹ بورڈ نے اس لیگ کے دوران کرکٹ کے علاوہ دیگر کھیلوں سے منسلک ہیروز کو بلانے کا جو فیصلہ کیا ہے اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ اس اقدام سے نا صرف ان ہیروز کو پذیرائی مل رہی ہے بلکہ قوم بھی ان کے بارے میں جان رہی ہے۔ اب تک ٹورنامنٹ کے مختلف میچوں کے دوران اسنوکر کے عالمی چیمپئن محمد یوسف، ریسلر انعام بٹ، جنوبی ایشیا کی تیز ترین خاتون ایتھلیٹ کا اعزاز حاصل کرنے والی نسیم حمید اور دیگر بھی میدان میں آچکے ہیں۔

امید ہے کہ آنے والے میچوں میں ہمیں مزید ایسے ہیروز سے ملنے کا موقع ملے گا جن کو کرکٹ کی چکا چوند میں نظرانداز کردیا جاتا ہے۔

لاہور قلندرز اور عثمان شنواری روایتوں کے امین

لاہور قلندرز نے اپنے 2 میچ ہار کر اپنی شکستوں کی روایت کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ اپنے دوسرے میچ میں تو لاہور قلندرز نے جو کھیل پیش کیا اس کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے فتح کے جبڑے سے شکست چھین لی۔

لاہور قلندرز ویسے ہی گزشتہ سیزن سے دباؤ میں تھی اور انہوں نے عثمان شنواری کی شکل میں ایک ایسا کھلاڑی چن لیا جو اہم موقعوں پر نو بال کرکے دباؤ بڑھانے کا ہنر خوب جانتا ہے۔ مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ ان نو بالز پر وکٹ بھی لیتے ہیں۔

ماضی میں بھی شنواری کی نو بالز ٹیم کی شکست کا باعث بنی ہیں اور اس موجودہ ٹورنامنٹ میں بھی انہوں نے نو بال پر اسلام آباد یونائیٹڈ کے کپتان کو آؤٹ کرکے اپنی روایت کو برقرار رکھا۔


کراچی اور لاہور سے اپنے سفر کا آغاز کرنے والی یہ لیگ اب ملتان اور راولپنڈی پہنچ رہی ہے۔ آنے والے دنوں میں جہاں ہمیں مزید دلچسپ میچ دیکھنے کو ملیں گے وہیں ان میچوں کی دلچسپی برقرار رکھنے کے لیے پاکستان کرکٹ بورڈ اور ٹورنامنٹ کے براڈ کاسٹرز کی ذمہ داری ہے کہ وہ بغیر کسی تکنیکی خرابی ان میچوں کی نشریات جاری رکھیں۔

یہ بات اس لیے کہی جارہی ہے کہ کراچی کنگز اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے میچ میں الٹراایج کی عدم دستیابی نے بہت زیادہ مایوس کیا۔ امید ہے کہ اب ایسی کوئی صورتحال پیدا نہیں ہوگی۔

خرم ضیاء خان

خرم ضیاء خان مطالعے کا شوق رکھنے کے ساتھ ساتھ کھیلوں کے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: KhurramZiaKhan@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔