ابھی تک کھیلے گئے دونوں میچوں میں کرس لین نے کرس گیل اور برینڈن میکولم کی یادیں ہی تازہ کی ہیں۔ اگر لاہور کو جیتنا ہے تو کرس لین اور سہیل اختر کو بڑا اسکور کرنا ہوگا۔ انفرادی خدمات کی وجہ سے ایک آدھ میچ تو جیتا جاسکتا ہے، مگر مستقل یہ کام نہیں ہوسکتا۔
اسلام آباد اننگز اسلام آباد کا آغاز بالکل اچھا نہیں رہا۔ ان کے سپر ہیرو لیوک رونکی کو شاہین شاہ آفریدی کا چیلنج درپیش تھا۔ شاہین نے اپنی زبردست گیند بازی اور تیز رفتاری سے رونکی کو بے بس کردیا اور پہلے ہی اوور میں رونکی مڈ آف کو پار کرنے کے چکر میں پکڑے گئے۔
ڈیوڈ ملان تیسرے نمبر پر بیٹنگ کے لیے آئے تو کریز پر وکٹ پر بائیں ہاتھ سے بیٹنگ کرنے والوں کی موجودگی کے سبب سہیل اختر نے باؤلنگ کے لیے حفیظ کو بلالیا۔ الٹے ہاتھ کے بلے بازوں کو سیدھا کرنا حفیظ سے بہتر شاید کوئی نہیں جانتا ہے اور وہی ہوا۔ حفیظ کے سوالات کا کولن منرو کے پاس کوئی جواب نہیں تھا اور ایک سیدھی گیند کو سوئپ مارنے کی کوشش کرتے ہوئے منرو بولڈ ہوگئے۔
اتنی جلدی 2 بڑے نقصان ہونے کے بعد لگا کہ اب اسلام آباد کے ہاتھ پیر پھول جائیں گے اور یہ میچ جلد ختم ہوجائے گا، لیکن آج شاداب کا دن تھا۔ انہوں نے خود بلّا اٹھایا اور میدان میں اتر آئے۔ بظاہر یہ ایک جوا ہی لگا، اور شاہین آفریدی نے اپنے دوسرے اوور میں شاداب کو مکمل طورپر آؤٹ کلاس کرکے اس خیال کو کسی حد تک درست بھی ثابت کیا، لیکن شاہین کی یہ بدقسمتی تھی کہ وہ وکٹ سے محروم رہے۔
یہاں سہیل اختر سے ایک غلطی ہوئی اور انہوں نے حارث رؤف کی موجودگی کے باوجود گیند عثمان شنواری کو تھما دی۔ ویسے تو حفیظ کو ایک اوور مزید بھی دیا جاسکتا تھا لیکن شنواری کا انتخاب ہوا اور شاداب نے انہیں کور پر ایک شاندار چوکا مار کر اپنے عزائم کا اعلان کردیا۔ اس اوور میں 12 رنز آئے اور اسلام آباد والوں کے حوصلے کچھ بڑھتے محسوس ہوئے۔ شاداب چونکہ شنواری پر ہاتھ صاف کرچکے تھے اسی لیے انہوں نے حارث رؤف کا عمدہ استقبال کیا اور 2 چوکوں اور ایک چھکے سمیت ان کے اوور میں 17 رنز بٹور لیے۔
یہی اوور میچ کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔ شاہین کے بعد لاہور والوں کی سب سے زیادہ امیدیں حارث رؤف سے وابستہ تھیں لیکن شاداب نے ان پر ہی حملہ آور ہوکر ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا۔
دوسری باؤلنگ کا ایک نقصان یہ ہوا کہ وکٹ پر باؤلر کے لیے کچھ نہیں تھا اور گیند گیلا ہونے کی وجہ سے اسپنر بھی غیر موثر ہوچکے تھے۔ ملان اور شاداب کی زبردست پارٹنرشپ کے بعد محمد حفیظ کو واپس لایا گیا لیکن اب وہ بات نہیں رہی تھی۔ گوکہ ڈیوڈ ملان ایک بڑا اسکور بنائے بغیر ڈیوڈ ویزے کا شکار بن گئے تاہم شاداب اب بھی وکٹ پر موجود تھے اور مسلسل بڑے شاٹس انہیں مل رہے تھے۔
11ویں اوور کے اختتام پر جب شاداب اپنی نصف سنچری مکمل کرکے آؤٹ ہوئے تب میچ دونوں ٹیموں کی پہنچ میں تھا۔ اسلام آباد کو 54 گیندوں پر 91 اسکور چاہیے تھے اور اس کے پاس ابھی 6 وکٹیں باقی تھیں۔ اسلام آباد نے دلیری دکھانے کا فیصلہ کیا جو انہیں راس بھی آگیا۔ کولن انگرام آئے اور آتے ہی سمیت پٹیل کے ایک اوور میں 22 رنز بنالیے۔ اگرچہ وہ اس اوور کی آخری گیند پر آؤٹ ہوگئے مگر شاید انہوں نے اپنا کام کرلیا تھا۔ انہوں نے صرف 14 گیندوں پر 30 رنز بنا کر اپنا حصہ ڈالا اور چلتے بنے ایسا ہی کچھ آصف علی نے بھی کیا۔
یہ دن سمیت پٹیل کے لیے بہت ہی خراب ثابت ہوا۔ پہلے انہوں نے میچ کا سب سے مہنگا اوور پھینکا اور اس کے بعد آصف علی کا کیچ چھوڑ دیا۔ اس مشکل صورتحال میں سہیل اختر کو اپنا ترپ کا پتا کھیلنا پڑا اور وہ شاہین آفریدی کو واپس لائے جنہوں نے آصف علی اور حسین طلعت کو ایک ہی اوور میں پویلین واپس بھیج کر لاہور کا پلڑا بھاری کردیا۔ لیکن اس پورے میچ میں یوں لگ رہا تھا کہ لاہور کے لیے شاہین اکیلے ہی لڑ رہے ہیں۔
کیونکہ اس اوور کے بعد جہاں دباؤ کو برقرار رکھنے کی ضرورت تھی اس وقت حارث رؤف ایک بار پھر پٹ گئے اور فہیم اشرف اور عماد بٹ نے حارث کے ایک اوور میں 14 رنز حاصل کرلیے۔ حارث اب تک پی ایس ایل کے کھیلے گئے دونوں ہی میچوں میں آف کلر نظر آئے، شاید وہ تھکاوٹ کا شکار ہیں۔
بہرحال میچ 18 گیندوں پر 20 رنز تک آگیا اور اسلام آباد کے پاس اب صرف 2 وکٹیں موجود تھیں۔ کپتان پھر شاہین کو لائے جنہوں نے پہلی ہی گیند پر عماد بٹ کو آؤٹ کردیا اور ایک بار تو یوں لگا جیسے آج قلندر جیت ہی گئے لیکن قسمت کو قلندروں کا امتحان مقصود تھا سو آخری وکٹ پر جب 20 رنز درکار تھے تب آخری نمبر پر بیٹنگ کے لیے آنے والے محمد موسی کے اندر کا بلے باز جاگ گیا۔ انہوں نے شاہین کو 2 چوکے جڑدیے۔ اس موقع پر اپنا پہلا ہی میچ کھیلنے والے احمد صفی عبداللہ نے بھی اپنا حصہ ڈالا یوں شاہین آفریدی نا صرف اپنی پانچویں وکٹ سے محروم رہے بلکہ میچ بھی قلندرز کے ہاتھ سے پھسلتا ہوا محسوس ہوا۔
حارث نے اگلے اوور میں صرف 3 رنز دیے اور اپنی خراب باؤلنگ کا کچھ کفارہ ادا کیا۔ لیکن وہ بھی فیصلہ کن وکٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ یہاں اگر موسیٰ اور صفی عبداللہ کے اعتماد کو داد نہ دی جائے تو یہ زیادتی ہوگی۔ وہ ایک بار بھی گھبرائے ہوئے نہیں لگے۔ دونوں ایسے کھیل رہے تھے جیسے نمبر 3 اور نمبر 4 کے بلے باز کھیلتے ہیں۔
آخری اوور میں جب 9 رنز درکار تھے اور اسلام آباد کے پاس صرف آخری وکٹ تھی۔ شاہین شنواری کا سامنا کر رہے تھے موسیٰ۔ لیکن جیسے ہی شنواری نے ایک شارٹ بال پھینکی تو موسیٰ نے اس کو تحفہ خاص سمجھا اور اہم ترین موقع پر شاندار چھکا لگادیا۔
اب چونکہ پورا ہاتھی نکل چکا تھ اور صرف دم رہ گئی تھی کہ اس لیے دونوں نے کسی بھی طور جلدی نہیں دکھائی اور بقیہ 3 رنز کو بھی سکون سے حاصل کرلیا اور یوں ایک غیر یقینی جیت اسلام آباد کے حصے میں آگئی۔
اس پورے اوور میں شنواری مکمل طور پر بد دل، بجھے بجھے اور ڈرے سہمے سے نظر آئے۔ حالانکہ ان کے سامنے 2 آخری نمبر کے بیٹسمین بلے بازی کرہے تھے۔ قلندروں کے لیے یہ شکست واقعی دل توڑ دینے والی ہے کیونکہ وہ ایک جیتا ہوا میچ ہار گئے ہیں۔ وہ بھی ہوم کراؤڈ کے سامنے۔
قلندروں کو اسلام آباد سے سیکھنا ہوگا۔ دونوں ٹیموں کے درمیان سب سے بڑا فرق اپروچ کا تھا۔ اسلام آباد والے انفرادی کی بجائے اجتماعی کارکردگی پر یقین رکھتے ہیں، حکمتِ عملی ترتیب دیتے ہیں اور معاملے کے نتائج و عواقب پر غور کرتے ہیں، جبکہ لاہور والے انفرادی کارکردگی پر خوش ہوتے ہیں، حکمتِ عملی نامی شے ان کے ہاں فضولیات میں شمار ہوتی ہے۔
اتوار کو دونوں ہونے والے میچ کی خاص بات تماشائی تھی، جنہوں نے بھرپور انداز میں اسٹیڈیم کا رخ کیا اور بتایا کہ لیگ کے پاکستان میں آنے کے کیا فوائد ہیں۔
آخری بات یہ کہ سہیل اختر آخر میں ضرورت سے زیادہ پریشان نظر آئے، انہیں یہاں شاداب خان سے سیکھنا ہوگا۔ ہار جیت یا مشکل حالات چلتے رہتے ہیں اگر بطور کپتان آپ کا چہرہ ہ بجھ جائے اور آپ کے ہی اوسان خطا نظر آئیں تو کسی دوسرے سے کیا شکوہ کیا جائے؟ ویسے اب لاہور کو اب کسی مشورے سے زیادہ دعا کی ضرورت ہے۔
محسن حدید
محسن حدید کرکٹ سے جنون کی حد تک لگاؤ رکھتے ہیں اور مختلف اخبارات اور ویب سائٹ کے لیے لکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔