سلطانز کے اس وکٹ کیپر بلے باز نے مشکل وقت میں صرف 35 گیندوں پر 50 رنز کی اننگز کھیل کر اپنے ٹیلنٹ کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ ذیشان اشرف کی کوشش سے ان کی ٹیم اپنے مقررہ اوورز میں 8 وکٹوں کے نقصان پر 164 رنز بنانے میں کامیاب ہوگئی۔
2ناکام باؤلر کامیاب رہے وہاب ریاض ایک تجربہ کار باؤلر جبکہ عماد بٹ ایک ابھرتے ہوئے کھلاڑی ہیں۔ ان دونوں کھلاڑیوں کی ٹیموں (پشاور زلمی اور اسلام آباد یونائیٹڈ) نے جب اپنا پہلا میچ کھیلا تو یہ دونوں باؤلرز خلافِ توقع خاطر خواہ کارکردگی پیش نہیں کرسکے تھے۔ کراچی کے خلاف پہلے میچ میں پشاور کے وہاب ریاض نے اپنے 4 اوورز میں 35 رنز دیے، اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ پشاور کی شکست میں ان کی اس کارکردگی کا بھی بڑا کردار تھا۔
وہاب ریاض نے اس ناکامی کا دوسرے میچ میں بھر پور ازالہ کیا اور کوئٹہ گلیڈیئٹرز کے خلاف 4 اوورز میں صرف 21 رنز دے کر 2 وکٹیں حاصل کیں اور اپنی ٹیم کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا۔
وہاب ریاض کی طرح عماد بٹ بھی اپنی ٹیم کے اوّلین میچ کے دوران باؤلنگ کے شعبے میں بُری طرح سے ناکام رہے تھے۔ انہوں نے اس میچ میں اپنے مقررہ 4 اوورز میں 50 رنز دے کر ایک وکٹ حاصل کی تھی۔ عماد کی ناکامی کے باعث کوئٹہ گلیڈی ایٹرز 3 جلدی وکٹیں کھونے کے باوجود باآسانی اپنے ہدف تک پہنچ گئے لیکن ملتان سلطانز کے حلاف عماد بٹ نے اپنی کھوئی ہوئی فارم حاصل کی اور اپنے مقررہ اوورز میں صرف 27 رنز دے کر 4 وکٹیں حاصل کیں اور یوں انہوں نے مخالف ٹیم کی اننگز کو ایک ایسے مجموعے تک محدود کردیا جو ان کے بلے بازوں کی دسترس میں تھا۔
دھواں دار آغاز دونوں میچوں میں ہدف کا تعاقب کرنے والی ٹیموں نے اتنا برق رفتار آغاز کیا کہ دوسری اننگز کے صرف 5 اوورز کے بعد ہی میچ کا نتیجہ واضح ہوگیا۔ نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں کھیلے جانے والے میچ میں کامران اکمل نے اپنی جارحانہ بلے بازی سے کوئٹہ کے باؤلرز کو ہر طرح سے بے بس کردیا۔
کامران اکمل نے پاور پلے ختم ہونے سے پہلے پہلے صرف 20 گیندوں پر اپنی نصف سنچری مکمل کرلی۔ پاور پلے کے اختتام پر پشاور زلمی کا اسکور ایک وکٹ کے نقصان پر 69 رنز تک پہنچ چکا تھا۔ پشاور زلمی کی اننگز کے دوسرے اوور میں کامران اکمل کو رن آؤٹ کیا جاسکتا تھا لیکن گلیڈی ایٹرز اس موقعے سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔
کامران اکمل نے پاور پلے کے بعد بھی اپنی دھواں دار بیٹنگ کا سلسلہ جاری رکھا اور صرف 54 گیندوں پر اپنی سنچری مکمل کرلی۔ اس ٹورنامنٹ کی تاریخ میں کامران اکمل کی یہ تیسری سنچری ہے۔ کامران کی اس شاندار بیٹنگ کی وجہ سے پشاور زلمی نے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو باآسانی شکست دے کر پوائنٹس ٹیبل پر اپنا کھاتہ بھی کھول لیا۔
ایسی ہی صورتحال ملتان اور اسلام آباد کے میچ میں رہی۔ ملتان سلطانز کی جانب سے دیے گئے ہدف کے تعاقب میں اسلام آباد یونائیٹڈ کے بلے بازوں نے ایسا جارحانہ آغاز فراہم کیا کہ مخالفین دم بخود رہ گئے۔ کامران اکمل نے تو اکیلے ہی گلیڈی ایٹرز کے باؤلرز کو بے بس کردیا تھا لیکن اسلام آباد یونائیٹڈ کی اوپنر جوڑی نے سلطانز کے باؤلرز کو مشترکہ طور پر رسوا کیا۔
اسلام آباد یونائیٹڈ کے اوپنر کولن منرو نے برق رفتاری سے 50 رنز بنائے جبکہ ان کے ساتھی لیوک رونچی نے 74 رنز کی شاندار اننگز کھیلی۔ ان دونوں کھلاڑیوں کی کوشش کی بدولت اسلام آباد یونائیٹڈ نے ملتان سلطانز کی طرف سے دیا گیا ہدف 20 گیندوں پہلے صرف 2 وکٹوں کے نقصان پر حاصل کرلیا۔
اسپنرز سے باؤلنگ کروانا دونوں میچوں میں کپتانوں نے اپنے ہدف کے دفاع کے لیے اسپنرز پر انحصار کا فیصلہ کیا جو بالکل غلط ثابت ہوا۔
سرفراز احمد جیسے تجربہ کار اور زیرک کپتان سے یہ امید نہیں تھی کہ وہ وکٹ پر کامران اکمل کی موجودگی کے باوجود اسپنر کے ساتھ باؤلنگ کا آغاز کریں گے۔ کامران اکمل نے اننگز کے اس پہلے اوور میں 2 چوکے اور 2 چھکے لگا کر مخالف باؤلر پر اپنی ایسی دھاک بٹھالی کہ اس کے بعد گیند بازی کے لیے آنے والا کوئی بھی باؤلر انہیں پریشان نہ کرسکا۔ ٹائمل ملز اور محمد حسنین کی موجودگی میں اسپنر سے آغاز کا یہ فیصلہ سمجھ سے باہر ہے۔
ملتان سلطانز کی ٹیم اعداد و شمار پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے۔ ان کے تجزیے کے مطابق کولن منرو لیگ اسپنر پر کمزور ہیں۔ اپنے ان اعداد و شمار کی روشنی میں ملتان سلطانز کے کپتان نے اننگز کا دوسرا اوور اپنے لیگ اسپنر عمران طاہر سے کروایا، لیکن عمران طاہر کے اس اوور میں اسلام آباد کے اوپنرز نے 2 چھکوں اور 2 چوکوں کی مدد سے 22 رنز بنا کر اپنی ٹیم کو فتح کی راہ پر گامزن کردیا۔
میری اپنی رائے میں اعداد و شمار اور تجزیے کی اہمیت ضرور ہوتی ہے لیکن ہر دن ایک نیا دن ہوتا ہے۔ ایک کپتان کو ٹیم منیجمنٹ کے ساتھ مل کر فتح حاصل کرنے کے لیے حکمتِ عملی ضرور بنانی چاہیے لیکن میدان کی صورتحال کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس پر عمل یا اس سے انحرافی کا فیصلہ کیا جانا چاہیے۔
احمد شہزاد اور شعیب ملک ایک مرتبہ پھر ناکام احمد شہزاد اور شعیب ملک اپنے پہلے میچ کی طرح دوسرے میچ میں بھی بیٹنگ کے شعبے میں ناکام رہے۔
ٹورنامنٹ سے چند گھنٹے قبل عمر اکمل پر میچ فکسنگ میں ملوث ہونے کے شبے میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے ان پر پابندی عائد کردی جبکہ کوئٹہ کے ایک اور اہم کھلاڑی شین واٹسن بھی اچھی فارم میں نہیں ہیں۔ ایسی صورتحال میں احمد شہزاد کو ایک سینئر کھلاڑی کی حیثیت سے ذمہ دارانہ کھیل پیش کرنا چاہیے لیکن تاحال وہ اچھی پرفامنس نہیں دے پائے ہیں۔
اگر احمد شہزاد آئندہ میچوں میں خاطر خواہ کارکردگی پیش نہیں کرپاتے تو کوئٹہ کو ان کی جگہ کسی دوسرے کھلاڑی کو آزمانا چاہیے۔ دوسری طرف شعیب ملک بھی اچھی فارم میں نہیں ہیں اور ان کی یہ خراب فارم کسی پھنسے ہوئے میچ میں پشاور زلمی کے لیے مشکلات پیدا کرسکتی ہے۔
کل کے دونوں میچوں کا ایک خاص پہلو نوجوان کھلاڑیوں کی نمایاں کارکردگی بھی ہے۔ جہاں ذیشان اشرف نے شاندار کرکٹ کھیلی وہیں باؤلنگ کے شعبے میں ملتان سلطانز کے محمد الیاس نے بھی اچھی باؤلنگ کا مظاہرہ کر کے اپنے روشن مستقبل کی نوید سنائی ہے۔
پشاور زلمی کے حیدر علی نے بھی کریز پر مختصر وقت تک ہی سہی لیکن اپنی صلاحیتوں کا زبردست مظاہرہ کیا۔ نوجوان کھلاڑیوں کی پرفارمنس پاکستان کے مستقبل کے لیے بلاشبہ ایک اچھی خبر ہے۔
اب تک ٹورنامنٹ کی 6 میں سے 5 ٹیمیں پوائنٹس ٹیبل پر اپنا کھاتہ کھول چکی ہیں۔ اگر اتوار کے روز لاہور قلندرز میچ جیت جائے تو ٹورنامنٹ کی صورتحال کافی دلچسپ ہوجائے گی۔
خرم ضیاء خان
خرم ضیاء خان مطالعے کا شوق رکھنے کے ساتھ ساتھ کھیلوں کے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: KhurramZiaKhan@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔