ایک غریب سے پیسے لیکر دوسرے غریب کو دینا کہاں کی عقلمندی ہے؟


کیا ایسا ممکن ہے کہ ہمارے ہاں لوگوں کی اکثریت کے لیے اقتصادی صورتحال کٹھن جبکہ وسیع پیمانے یعنی (Macro) سطح پر اقتصادی صورتحال مستحکم اور اس قابل ہو کہ حکومت تسلی دینے لائق چند اقدمات بھی کرسکتی ہو؟ اور کیا یہ صورتحال بڑے عرصے تک برقرار رہ سکتی ہے؟
مذکورہ بالا دونوں سوالات کا جواب بظاہر ’ہاں‘ میں نظر آتا ہے۔ اس وقت مہنگائی کی شرح 14 سے 15 فیصد ہے، توانائی، اشیائے خوردونوش جیسی اہم ضروریاتِ زندگی کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، شرح نمو میں بلندی دکھائی دیتی ہے، ٹیکسوں کے بوجھ میں اضافہ ہوا ہے اور مزید اضافے کے ارادے بھی نظر آتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ شرح نمو میں سست رفتاری پائی جاتی ہے، بے روزگاری کی شرح عروج پر ہے، ملازمتوں کے مواقع پیدا نہیں کیے جارہے، آمدن میں عدم مساوات کے باعث غربت بڑھتی جا رہی ہے۔ پھر برآمدات کمزوری کا شکار ہیں، بلند محصول کاری کے ذریعے درآمدات دب رہی ہیں، مینوفیکچرنگ شعبے کی شرح نمو میں منفی رجحان پایا جاتا ہے اور زراعت کے شعبے کی صورتحال بھی کچھ اچھی نہیں ہے۔ ملک میں عوام کی اکثریت مشکل حالات سے گزر رہی ہے۔
دوسری طرف حکومتی نمائندگان غالباً روز ہی اس اطمینان کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ معیشت مستحکم ہو رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بنیادی خسارہ ہدف سے نیچے ہے۔ تجارتی خسارہ سکڑ گیا ہے، شرح مبادلہ اپنی متوازن سطح پر برقرار ہے، ٹیکس منافع میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور حکومتی بجٹ کی صورتحال میں بہتری آرہی ہے۔ وہ یہ بھی دعوٰی کرتے ہیں کہ عالمی ادارے بھی پاکستان کی معاشی بہتری کو تسلیم اور اس کی تعریف کرتے ہیں۔
چونکہ ملک کے اندر شرح نمو سست اور بے روزگاری بے انتہا ہے لہٰذا اس کے سبب مہنگائی کا دباؤ معیشت پر نہیں آتا ہے۔ جب بجلی کے نرخوں میں اضافہ ہوتا ہے اور قیمتوں کے نظام کے ذریعے شرح تبادلہ متوازن سطح پر رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے تب مہنگائی کا دباؤ ہلکا ہونے لگتا ہے۔ یوں پھر اسٹیٹ بینک کو شرح سود میں کمی لانے میں مدد مل سکتی ہے اور شرح سود میں کمی پیداواری سرگرمیوں کو بحال رکھنے میں مددگار ثابت ہوگی۔
اس وقت معاشی حالات کو بے اثر اور متوازن نہیں رکھا جاسکتا کیونکہ ان حالات کی وجہ سے سماجی سطح پر بھی بے چینی بڑھ رہی ہے۔ حکومت پہلے ہی اس دباؤ کو محسوس کرنے لگی ہے۔ تقریباً روزانہ کی بنیاد پر وزیراعظم اور اہم وزرا قیمتوں پر ضابطے کی ضرورت اور عوام کو ’ریلیف‘ کی فراہمی سے متعلق بیانات دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی یہ فکر دراصل عوامی دباؤ کا نتیجہ ہے۔
مستحقین کو براہِ راست ریلیف فراہمی کے لیے ہر چند ہفتے بعد حکومت کبھی احساس، کامیاب جوان اور دیگر پروگراموں کے تحت کسی نہ کسی نئے منصوبے یا پروگرام کا اعلان کررہی ہوتی ہے۔ حکومت کے اس تحرک کے پیچھے بھی عوامی دباؤ کارفرما ہے۔
حکومت کے زیادہ تر پروگرام اتنے بڑے یا گہرے نہیں ہیں کہ جن سے سست رو پیداوار، شدید مہنگائی اور بے روزگاری کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کو حل کیا جاسکے، لیکن ہاں یہ پروگرام مخصوص لوگوں کو کچھ ریلیف اور حکومت کو کچھ عرصے کے لیے تنقید سے بچنے کی مہلت ضرور دے رہے ہیں۔
چونکہ حکومت کے پاس وسائل کی کمی ہے اس لیے وہ اپنے چند ریلیف پروگراموں کو انجام دینے کی خاطر دیگر پروگراموں کے لیے مختص کردہ رقوم استعمال کرتی ہے، حالانکہ بعض اوقات تو وہ پروگرام بھی نئے پروگراموں جتنے ہی ضروری اور اہم ہوتے ہیں۔
حکومت نے جب ایک طرف یونیورسٹی کے طلبہ کے لیے 50 ہزار اسکالرشپس دینے کا اعلان کیا تھا تو دوسری طرف ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے بجٹ میں 10 سے 15 فیصد کٹوتی کردی۔ 50 ہزار خوش نصیب طلبہ کو تو فائدہ پہنچے گا لیکن اس وجہ سے یونیورسٹیوں کو شدید مالی بحران کا سامنا ہے اور انہیں واجبات کی ادائیگی میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ تو کیا پیسوں کو ایک سے دوسرے پروگرام یا منصوبے پر لگانے سے ’عوام‘ کو فائدہ پہنچا؟
لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس faisal.bari@ideaspak.org اور bari@lums.edu.pk ہے۔