شرجیل خان کے بعد بابر اعظم کا ساتھ دینے کیمرون ڈیلپورٹ آئے اور انہوں نے بابر اعظم کے ساتھ مل کر اپنی ٹیم کی اننگز کو آگے بڑھانا شروع کیا۔ کراچی کنگز کی اننگز کا چھٹا اوور تجربہ کار باؤلر وہاب ریاض نے کروایا جس میں انہوں نے 17 رنز دے کر کنگز کو ایک بڑا اسکور کرنے کی بنیاد فراہم کردی۔
کراچی کنگز کی دوسری وکٹ 73 رنز پر گری۔ اس موقع پر بابر اعظم کا ساتھ دینے کے لیے کپتان عماد وسیم میدان میں آئے اور ان دونوں نے صرف 55 گیندوں پر 97 رنز کی شراکت قائم کرکے اپنی ٹیم کے لیے ایک بڑے اسکور تک رسائی آسان کردی۔ 170 کے مجموعی اسکور پر بابر اعظم 56 گیندوں پر 78رنز بنا کر رن آؤٹ ہوگئے۔ یہاں یہ کہنا بنتا ہے کہ اگر وہ رن آؤٹ نہ ہوتے تو وہ پی ایس ایل کی اپنی پہلی سنچری اسکور کرنے میں کامیاب ہوجاتے۔
بابر پر ایک تنقید یہ کی جاتی ہے کہ وہ پاور پلے کے ابتدائی 6 اوورز کے بعد رنز اسکور کرنے کی رفتار نہیں بڑھا سکتے لیکن اس میچ میں بابر نے نسبتاً سست آغاز کے بعد رنز بنانے کی رفتار کو بڑھا کر ناقدین کے اس سوال کا بھی جواب دے دیا۔ بابر اعظم نے اپنی اننگز کے پہلے 29 رنز کے لیے 29 گیندیں ہی کھیلیں لیکن انہوں نے اپنی اننگز کے اگلے 49 رنز کے لیے صرف 27 گیندوں کا سامنا کیا۔
بابر اعظم کے آؤٹ ہوتے ہی کنگز کی اننگز کی روانی متاثر ہوئی اور انہوں نے اگلی 10 گیندوں میں عماد وسیم کی وکٹ کھو کر صرف 15 رنز بنائے۔ عماد وسیم کے آؤٹ ہونے کے بعد افتخار احمد کریز پر آئے۔ افتخار کے پاس صرف 3 گیندیں تھیں اور انہوں نے ان 3 گیندوں کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے 16 رنز بناکر اپنی ٹیم کا اسکور مقررہ اوورز میں 201 رنز تک پہنچا دیا۔ افتخار احمد ٹی20 کرکٹ میں ملنے والے ہر موقعے سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، اور اگر اس میچ میں کراچی والے ان کو چیڈوک والٹن سے پہلے بھیجتے تو شاید رنز اس سے بھی زیادہ ہوسکتے تھے۔
یہاں یاد رہے کہ پاکستان سپر لیگ کی تاریخ میں اب تک 200 یا اس سے زائد رنز کا ہدف صرف 3 مرتبہ ہی کامیابی سے عبور ہوسکا ہے اور پشاور زلمی کے پاس اس مشکل ہدف کو حاصل کرنے کے تمام وسائل موجود تھے۔
اننگز کے دوسرے اوور میں کامران اکمل نے 2 چوکے اور ایک چھکا لگا کر اپنے خطرناک عزائم کا اظہار کردیا تھا۔ پشاور زلمی کی اننگز کا چوتھا اوور کرس جارڈن نے کروایا اور اس اوور میں انہوں نے ٹام بینٹن اور حیدر علی کو پویلین بھیج کر زلمی کی اننگز کو زبردست دھچکا پہنچایا۔
پشاور زلمی کے لیے چوتھے نمبر پر بیٹنگ کرنے تجربے کار شعیب ملک آئے لیکن وہ بھی اس دباؤ کا سامنا کرتے ہوئے کچھ گھبرائے ہوئے محسوس ہوئے کیونکہ یہ دونوں کھلاڑی 27 گیندوں پر صرف 35 رنز ہی جوڑ سکے۔ ان کی سست رفتار شراکت کے باعث مطلوبہ رن اوسط بتدریج بڑھتا بڑھتا 11.81 تک پہنچ گیا تھا۔
اب صورتحال اس وقت مزید خراب ہونا شروع ہوئی جب 9ویں اوور میں پہلے شعیب ملک غیر ضروری رن لینے کی کوشش میں رن آؤٹ ہوئے اور پھر 10ویں اوور میں پارٹ ٹائم کیمرون ڈیلپورٹ نے کامران اکمل کو بولڈ کردیا۔
پھر میچ میں ایک وہ وقت بھی آیا جب پشاور میچ سے تقریباً باہر ہوگیا تھا اور کراچی کی جیت بہت آسان معلوم ہورہی تھی، کیونکہ زلمی کو میچ جیتنے کے لیے صرف 33 گیندوں پر 75 رنز درکار تھے، جو بظاہر ناممکن دکھائی دے رہے تھے مگر شاید لیام لیونگ اسٹون کے ارادے کچھ اور ہی تھے، اور ان ارادوں میں ان کا کسی حد تک کپتان ڈیرن سیمی نے بھی ساتھ دیا، کیونکہ دونوں کھلاڑیوں نے پیش قدمی شروع کی اور دیکھتے ہی دیکھتے 31 گیندوں پر 62 رنز بناکر اپنی ٹیم کی جیت کی امیدیں روشن کردیں۔
اس موقع پر اننگز کا آخری اوور کرنے والے عمید آصف آئے۔ اس آخری اوور میں زلمی کو 16 رنز درکار تھے، اور جس اچھی فارم میں یہ دونوں کھلاڑی لگ رہے تھے، اس میں ہدف کا تعاقب بالکل بھی مشکل دکھائی نہیں دے رہا تھا، لیکن عمید نے شاندار باؤلنگ کرکے اپنی ٹیم کو فتح کی راہ پر ڈال دیا۔ عمید نے اس اوور کی پہلی 3 گیندوں پر صرف 4 رنز دیے اور پھر چوتھی گیند پر ڈیرن سیمی کا اپنی ہی گیند پر شاندار کیچ لے کر کراچی کنگز کی جیت پر مہر ثبت کردی۔
آخری 2 گیندوں پر جیت کے لیے زلمی کو 12 رنز درکار تھے لیکن وہ صرف ایک ہی رن بنا سکے اور یوں ایک دلچسپ اور سنسنی خیز مقابلے کے بعد کراچی کنگز نے ہوم گراؤنڈ پر، ہوم کراؤڈ کے سامنے پاکستان سپر لیگ کے پانچویں ایڈیشن کے اپنے اولین میچ میں 10 رنز سے کامیابی حاصل کرکے ٹورنامنٹ کا شاندار آغاز کیا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کراچی کنگز کی آج کی جیت میں کلیدی کردار ادا کرنے والے 2 کھلاڑی عمید آصف اور کرس جارڈن پی ایس ایل کے گزشتہ سیزن میں زلمی کی ٹیم کا حصہ رہے ہیں جبکہ زلمی کے آج کے سب سے کامیاب بیٹسمین لیونگ اسٹون نے 2019ء کی پی ایس ایل میں کراچی کنگز کی نمائندگی کی تھی۔ شاید یہ کھلاڑی آج کی اپنی کارکردگی سے اپنی ماضی کی ٹیموں کے کرتا دھرتاؤں کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ ہم میں اب بھی دم خم موجود ہے اور وہ دم خم ہم آپ پر ہی آزمائیں گے۔
اگرچہ اس میچ کا بہترین کھلاڑی بابر اعظم کو قرار دیا گیا ہے لیکن میری نظر میں مین آف دی میچ کے درست حقدار عمید آصف ہیں جنہوں نے بیٹنگ کے لیے سازگار پچ پر ایک مضبوط بیٹنگ لائن اپ کے خلاف اپنے 4 اوورز میں صرف 23 رنز دے کر 2 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔
میرے خیال میں آگے آنے والے میچوں کے لیے کراچی کنگز کو اپنی باؤلنگ میں ایک اور اسپن باؤلر کا اضافہ کرنے کی ضرورت ہے اور بیٹنگ آرڈر میں افتخار احمد کو تسلسل کے ساتھ نمبر 4 یا 5 پر کھلانے کی حکمتِ عملی پر عمل کرنے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔
مزید کے لیے کلک کریں
لاہور بمقابلہ ملتان آج کا دوسرا میچ لاہور قلندرز اور ملتان سلطان کے مابین کھیلا گیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب قلندرز اپنے ملک میں اپنے کراؤڈ کے سامنے کھیل رہے تھے۔ یہ ایک نیا ٹورنامنٹ اور ایک نیا میدان تھا لیکن لاہور قلندرز وہی پرانی والی تھی جو ہمیشہ شکست سے پاکستان سپر لیگ کا آغاز کرتی ہے اور اس بار بھی اس ٹیم نے اپنی روایت کو برقرار رکھا۔
قذافی اسٹیڈیم لاہور میں کھیلے جانے والے میچ میں پی ایس ایل میں اپنی کپتانی کا ڈیبیو کرنے والے شان مسعود نے ٹاس جیت کر لاہور قلندرز کو بیٹنگ کی دعوت دی۔ ابتدا میں تو اس وقت شان مسعود کا یہ فیصلہ غلط لگنے لگا جب قلندرز کے اوپنرز کرس لین اور فخر زمان نے 5 اوورز میں 53 رنز بنالیے۔
اس مشکل صورتحال سے نکلنے کے لیے معین علی کو لایا گیا مگر ان کی پہلی ہی گیند پر لین نے چھکا لگا کر واضح پیغام دے دیا۔ لیکن شاید معین علی کو یہ پیغام بالکل اچھا نہیں لگا کیونکہ انہوں نے اگلی ہی گیند پر لین کو پویلین کی راہ دکھاتے ہوئے اس پیغام کا بدلہ لے لیا، اور بات یہیں نہیں رکی بلکہ 2 گیندوں بعد فخر زمان کو بھی چلتا کیا۔
ان یکے بعد دیگرے نقصانات نے لاہور کو ایسا نقصان پہنچایا کہ پھر وہ سنبھل ہی نہ سکے۔ اگر ان کے کپتان سہیل اختر اہم ترین 34 رنز نہ بناتے تو لاہور کی ٹیم 138 رنز ہونے کے بجائے شاید 100 تک بھی نہیں پہنچتی۔
قلندرز کی اننگز کے دوران محمد حفیظ نے جس سست روی سے بیٹنگ کی وہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ حفیظ نے اپنے 14 رنز کے لیے 22 گیندوں کا استعمال کیا۔ اگر حفیظ سالوں کا تجربہ رکھنے کے باوجود بھی مشکل وقت میں اپنی ٹیم کو دباؤ سے نکالنے میں ناکام رہتے ہیں تو ان کو مستقبل میں قومی ٹیم کی نمائندگی سے خود ہی معذرت کرلینی چاہیے۔
اس میچ میں شان مسعود کی کپتانی خاصی متاثر کن رہی۔ جس وقت قلندر کے اوپنرز اننگز کے ابتدائی لمحات میں گیند کو تواتر کے ساتھ باؤنڈری سے باہر پھینک رہے تھے اس وقت شان نے اپنے حواس کو قابو میں رکھا اور باؤلنگ میں جلدی جلدی تبدیلیاں کیں اور ان کی حکمتِ عملی کی وجہ سے ان کی ٹیم نہ صرف میچ میں واپس آئی بلکہ بہت ہی ابتدائی لمحات میں مقابلے پر اپنی گرفت مضبوط کرلی۔
لاہور قلندرز کے بیٹسمینوں کی ناکامی میں خراب شاٹ سلیکشن کا بھی عمل دخل ہے۔ آگے آنے والے میچوں میں قلندرز کو اپنی بیٹنگ کی حکمتِ عملی پر نظرثانی کرنی ہوگی۔ قلندرز کے کوچ کے مطابق ان کے پاس بہترین باؤلنگ ہے لیکن اس بہترین باؤلنگ کو اپنے جوہر دکھانے کے لیے اتنے رنز ضرور درکار ہیں جن کا دفاع کرنا ممکن بھی ہو، اور جب تک بیٹسمین یہ ذمہ داری انجام نہیں دیں گے، تب تک شاید بات نہ بنے۔
قلندروں کا ایک بڑا مسئلہ اوپنر فخر زمان ہیں، جو کافی وقت سے فارم میں نہیں ہیں۔ اگر ان کی یہ فارم برقرار رہی تو پھر قلندروں کو کچھ سوچنا ہوگا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کچھ میچوں کے لیے فخر کو مڈل آرڈر میں لے آیا جائے اور کرس لین کے ساتھ یا تو حفیظ اوپننگ کرلیں یا پھر خود کپتان سہیل اختر۔
ہدف کے تعاقب میں ملتان سلطان کے لیے شاہین آفریدی نے کچھ مشکلات ضرور پیدا کیں لیکن یہ ہدف ملتان سلطان کی اننگز کو ابتدا میں لگنے والے ہچکولوں کے باوجود اتنا کم تھا کہ سلطانز نے باآسانی اس کو 17ویں اوور میں 5 وکٹوں کے نقصان پر ہی حاصل کرلیا۔
کپتانی کے ساتھ ساتھ شان مسعود نے بیٹنگ میں بھی اپنے جوہر دکھائے۔ عام طور پر سست بیٹنگ کے لیے مشہور شان مسعود نے 29 گیندوں پر 38 رنز بناکر اس بات کا عندیہ دینے کی کوشش کی کہ وہ اس فارمٹ کی مناسبت سے اپنی بیٹنگ کو ڈھالنے کے لیے محنت کر رہے ہیں۔
لاہور قلندرز کی اس کاوش سے شاید ہی کوئی انکار کرسکے کہ وہ اپنے پلیئرز ڈیولپمنٹ پروگرام کی مدد سے پاکستان کے لیے نئے سے نئے کھلاڑی تلاش کر رہی ہے، لیکن اس خوبی کے ساتھ ساتھ اب اس ٹیم کو پی ایس ایل میں اپنی کارکردگی پر بھی توجہ دینی ہوگی۔ ان کا اچھا کھیلنا صرف ان کے لیے نہیں بلکہ ایونٹ کے لیے بھی اچھا ہے، کیونکہ جب تک ساری ٹیمیں برابر کا کھیل پیش نہیں کریں گے اور مقابلہ برابر کا نہیں ہوگا تب تک دلچسپی کا گراف اپنی انتہا کو نہیں پہنچ سکے گا۔
خرم ضیاء خان
خرم ضیاء خان مطالعے کا شوق رکھنے کے ساتھ ساتھ کھیلوں کے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: KhurramZiaKhan@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔