امریکا، افغان طالبان کا 29 فروری کو امن معاہدے پر دستخط کرنے کا اعلان
امریکا اور طالبان افغانستان میں امن کے قیام کے لیے تاریخی معاہدے پر 29 فروری کو دستخط کرنے کے لیے تیار ہوگئے ہیں جس کے نتیجے میں دہائیوں سے جاری جنگ کا خاتمہ ہو جائے گا۔
غیر ملکی خبر ایجنسی 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو اور طالبان دونوں کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ ایک ہفتے کی جزوی صلح کے بعد 29 فروری کو دوحہ میں معاہدے پر دستخط کرنے پر رضامند ہوگئے ہیں۔
پومپیو کا کہنا تھا کہ ‘اس اتفاق رائے کی کامیابی پر آگے بڑھنے کے لیے امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدہ متوقع ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات بھی بہت جلد شروع ہوجائیں گے’۔
مزید پڑھیں:امریکا کے ساتھ معاہدے کیلئے مکمل طور پر پرعزم ہیں، نائب سربراہ طالبان
مائیک پومپیو نے ٹویٹر میں ایک بیان میں کہا کہ ‘دہائیوں کے تنازع کے بعد ہم افغانستان بھر میں کارروائیوں میں کمی کے لیے طالبان کے ساتھ اتفاق کر چکے ہیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘امن کے طویل سفر کی جانب یہ ایک اہم قدم ہے اور میں تمام افغانوں سے مطالبہ کرتا ہوں کہ اس موقع کو جانے نہ دیں’۔
قبل ازیں افغان قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جاوید فیصل اور طالبان ذرائع نے کہا تھا کہ ‘امریکا، طالبان اور افغان سیکیورٹی فورسز کے درمیان کارروائیوں میں کمی کا آغاز جلد ہوجائے گا’۔
خیال رہے کہ افغانستان میں دو دہائیوں سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے امریکا اور طالبان کے درمیان گزشتہ ایک برس سے مذاکرات جاری ہیں جن میں درمیان میں تعطل بھی آیا، لیکن پھر دوبارہ آغاز ہوا اور اب ایک ہفتے کی جنگ بندی کی کامیابی کی صورت میں معاہدے کو حتمی شکل دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ایک ہفتے کی جنگ بندی سے یہ ظاہر ہوگا کہ طالبان کا اپنے جنگجوؤں پر کنٹرول ہے اور معاہدے کی کامیابی کے لیے سنجیدہ ہیں جبکہ معاہدے کے بعد واشنگٹن، افغانستان سے اپنے فوجیوں کی نصف تعداد کم کرے گا جو اس وقت 12 ہزار سے 13 ہزار تک ہے۔
یہ بھی پڑھیں:امریکا، طالبان کے درمیان امن معاہدے پر جلد دستخط ہوں گے، ترجمان دفتر خارجہ
طالبان نے ایک بیان میں کہا کہ ‘دونوں فریق معاہدے پر دستخط کے لیے بہتر صورت حال بنائیں گی’۔
طالبان ذرائع کا کہنا تھا کہ ‘اگر معاہدے پر 29 فروری کو دستخط ہوگئے تو امن معاہدے کو وسیع کرنے کے لیے طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات ہوں گے جو 10 مارچ کو طے ہوں گے’۔
امریکا اور طالبان کی جانب سے معاہدے کے لیے رضامندی کے اعلان پر عالمی برادری کی جانب سے خیرمقدمی کے بیانات سامنے آئے ہیں اور نیٹو کا کہنا تھا کہ ‘معاہدے سے افغانستان میں امن کے لیے راستہ ہموار ہوگا’۔
رپورٹ کے مطابق روس نے معاہدے کے حوالے سے اپنے ردعمل میں کہا کہ ‘جنگ کے خاتمے کے لیے یہ بہت اہمیت کا حامل ہے’۔
پاکستان کی جانب سے خیر مقدم
پاکستان نے امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں اہم کردار ادا کیا اور دونوں فریقین کی جانب سے معاہدے کے حوالے سے بیان کا خیر مقدم کیا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ عائشہ فاروقی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ’امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدے کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہیں اور ہم دونوں فریقین کے درمیان براہ راست مذاکرات کی تسلسل سے حمایت کرتے آئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اس عمل کے لیے سہولت کاری اور اب تک ہونے والی پیش رفت کا حصہ رہا ہے اور ہم 29 فروری کو معاہدے پر دستخط کے منتظر ہیں۔
مزید پڑھیں:افغان امن عمل: امریکا، طالبان رواں ماہ معاہدے پر دستخط کرسکتے ہیں، رپورٹس
ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ اس معاہدے سے افغانستان کے اندر اسٹیک ہولڈرز کے مابین مذاکرات کی راہ ہموار ہوگی اور ہمیں امید ہے کہ افغان فریقین اس تاریخی موقع سے فائدہ اٹھائیں گے۔
پاکستان نے اپنے خیر مقدمی بیان میں کہا کہ افغانستان اور خطے میں دیرپا امن و استحکام کے لیے سیاسی اتفاق رائے کریں گے، پاکستان پرامن، مستحکم، متحد، جمہوری اور خوش حال افغانستان کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کرتا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ ہم اپنی حمایت جاری رکھیں گے کہ ایسا افغانستان جس کے اندر بھی امن ہو اور ہمسایوں کے ساتھ بھی امن ہو، افغانستان میں دیرپا امن کے لیے بین الاقوامی برادری کی کوششوں کے منتظر ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے اندر ایسا ماحول چاہتے ہیں جس میں افغان مہاجرین کی باوقار واپسی ممکن ہو۔
واضح رہے کہ افغانستان میں گزشتہ 18 برس سے جنگ جاری رہے اور اس وقت امریکا کے 13 ہزار اور نیٹو کے ہزاروں فوجی موجود ہیں جو 11 ستمبر 2001 میں امریکا میں ہونے والے حملے کے بعد شروع ہوئی تھی۔
امریکی سفارت کا کہنا تھا کہ امریکا اپنے فوجیوں کی تعداد 9 ہزار تک کم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
افغان وزارت دفاع کے عہدیدار کے مطابق امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدے پر دستخط کی خبروں سے ملک میں حملوں میں کمی آئی ہے اور ملک کے 40 فیصد علاقے پر ان کا کنٹرول ہے۔
یاد رہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان تقریباً ایک سال سے جاری مذاکرات ستمبر 2019 میں اپنے حتمی مراحل میں داخل ہوگئے تھے تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کی جانب سے مبینہ تشدد کو جواز بناتے ہوئے اس عمل کو 'مردہ' قرار دے دیا تھا۔
گزشتہ ماہ طالبان ذرائع کا کہنا تھا کہ انہوں نے 7 سے 10 روز کے مختصر سیز فائر کی پیشکش کی ہے تاکہ معاہدہ کیا جاسکے تاہم اس پیشکش کی تفصیلات کے حوالے سے دونوں جانب سے کوئی اعلان نہیں کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:زلمے خلیل زاد کی ملا برادر سمیت طالبان کی سینئر قیادت سے ملاقات
امریکا اور سی آئی اے کے تربیت یافتہ افغانستان کے خصوصی فورسز کی بمباری، جس میں کئی شہری بھی جاں بحق ہوئے، پر انسانی حقوق کی تنظیموں اور چند افغان حکام کی جانب سے مسلسل تنقید کی جاتی رہی ہے جس کے نتیجے میں افغانستان کے انٹیلی جنس سربراہ کو بھی برطرف کیا گیا تھا۔
2018 کے بعد امریکی فضائی حملوں میں اضافے سے تنازع میں ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
امریکی سینٹرل کمانڈ کے اعداد و شمار کے مطابق 2019 میں امریکی ایئر فورس نے افغانستان میں 7 ہزار 423 بم گرائے جبکہ 2018 میں 7 ہزار 362 بم گرائے گئے تھے۔
2017 میں امریکا نے جنگ زدہ علاقے میں 4 ہزار 361 جبکہ 2017 میں ایک ہزار 337 بم گرائے تھے۔