نقطہ نظر

بجلی کے بلوں کو ’صفر‘ تک لانے کے لیے ہم کوشش کیوں نہیں کرتے؟

ہمیں ہاتھ پر ہاتھ دھرے اس انقلاب کے برپا ہونے کا انتظار نہیں کرنا بلکہ اس عمل میں تیزی لانے کا چیلنج قبول کرنا ہے۔

فضا میں منفی ہوائیں کچھ زیادہ ہی چلنے لگی ہیں اور میرے مضامین کو باقاعدگی سے پڑھنے والے خواتین و حضرات نے میری تحریروں پر اپنے تبصروں میں کہا ہے کہ وہ مجھ سے حکومت پر فقط تنقید ہی نہیں بلکہ حکومت کے لیے میری تجاویز بھی سننا چاہتے ہیں۔ اس چیلنج میں کوئی خرابی نہیں اور میں اسے قبول بھی کرتا ہوں۔ پیش خدمت ہیں میری چند تجاویز۔

میں ماضی میں بھی اس بات کو واضح کرچکا ہوں کہ میں قابلِ تجدید توانائی کے انقلاب کا شیدائی ہوں جو اس وقت پوری دنیا میں پھیل رہا ہے۔ میں اسی انقلاب کو پاکستان میں دیکھنا چاہتا ہوں اور اس انقلاب کو جلد سے جلد یہاں برپا کرنے سے متعلق چند تجاویز بھی رکھتا ہوں۔

سب سے پہلے تو ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کس طرح یہ صنعت ترقی کر رہی ہے۔ 2010ء میں اوبامہ انتظامیہ نے گرڈ سے مربوط شمسی توانائی کی قیمت کو گھٹا کر پاور گرڈ میں پہلے سے موجود بجلی کی قیمت کے برابر لانے کے لیے Sunshot Initiative نامی ایک پرعزم مہم کا آغاز کیا تھا۔

سب سے پہلے تو ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کس طرح یہ صنعت ترقی کر رہی ہے۔ 2010ء میں اوبامہ انتظامیہ نے Sunshot Initiative نامی ایک پُرعزم مہم کا آغاز کیا تھا۔ اس مہم کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ گرڈ سے مربوط شمسی توانائی کی قیمت کو گھٹا کر پاور گرڈ میں پہلے سے موجود بجلی کی قیمت کے برابر لانے۔

اس وقت ان کے اندازے کے مطابق اس گرڈ پاور کی قیمت 6 سینٹ فی یونٹ جبکہ گرڈ سے مربوط شمسی توانائی کی قیمت 28 سینٹ فی یونٹ تھی۔ انہوں نے سال 2020ء تک شمسی توانائی کی قیمت 6 سینٹ تک نیچے لانے کا عزم کیا۔

چنانچہ وہ 2017ء تک گھریلو استعمال کے لیے شمسی توانائی کی قیمت 52 سینٹ سے گھٹا کر 40 سینٹ جبکہ کمرشل استعمال کے لیے شمسی توانائی کی قیمت 16 سینٹ گھٹا کر 11 سینٹ تک لے آئے۔ رواں سال کے آخر تک ان اعداد کو بالترتیب 10 اور 8 سینٹ تک مزید نیچے لانا چاہتے ہیں۔ یہ عین ممکن ہے کہ اب تک یہ اہداف حاصل کرلیے گئے ہوں گے۔

(International Renewable Energy Agency (IRENA کا گزشتہ برس کہنا تھا کہ 2020ء میں جن شمسی توانائی کے منصوبوں سے بجلی حاصل کی جائے گی ان میں سے 83 فیصد منصوبے سستے ترین ایندھن سے تیار ہونے والی بجلی سے بھی سستی بجلی فراہم کریں گے۔

ان کے سروے کے مطابق شمسی توانائی کے منصوبوں کا فی یونٹ کا اوسط ٹیرف 4.8 سینٹ ہوگا، یعنی Sunshot Initiative کے ہدف سے بھی کم۔

اس ادارے کے مطابق رواں برس پن بجلی اور شمسی توانائی کے ذرائع دنیا بھر میں کوئلے سے پیدا کی جانے والی 700 گیگا واٹ آپریشنل بجلی سے بھی زیادہ بجلی پیدا کریں گے یعنی رواں برس نہ صرف مالی بلکہ آپریشنل بجلی کی سطح پر انقلاب برپا ہوگا۔ جس کے بعد یہ انقلاب یونہی آگے بڑھتا جائے گا۔

ہم توانائی کی پیداوار کے ذرائع میں آنے والے ایک ایسے زبردست انقلاب کے بیچ میں کھڑے ہیں جو ڈیڑھ دہائی قبل موبائل فونز کے ذریعے رابطے کے ذرائع میں آںے والے انقلاب سے کافی ملتا جلتا ہے۔

1990ء کی دہائی میں شاذ و نادر ہی کسی کے ہاتھ میں موبائل نظر آتا تھا لیکن اب تو شاذ و نادر ہی ایسا کوئی شخص نظر آتا ہے جس کے پاس موبائل نہ ہو۔ سولر پینلز کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوگا۔ 2020ء کی دہائی کے آخر تک شاید ہی کوئی ایسا گھر، دفتر یا صنعت نظر آئے جہاں سولر پینلز نصب نہ ہوں۔

ہمیں ہاتھ پر ہاتھ دھرے اس انقلاب کے برپا ہونے کا انتظار نہیں کرنا بلکہ اس عمل میں تیزی لانے کا چیلنج قبول کرنا ہے۔ موبائل کمیونیکیشن کے انقلاب کے برعکس یہ انقلاب بڑے بڑے آپریٹرز اور اربوں ڈالرز کا تقاضا نہیں کرتا۔ چھوٹے چھوٹے تاجر اب شمسی توانائی کی ٹیکنالوجی کو باہر سے منگوانے لگے ہیں جن کے ذریعے پورے گھر کی بجلی کا بل صفر تک لایا جاسکتا ہے۔

2015ء میں توانائی کے ریگولیٹری ادارے نیپرا نے ملک کے پہلے ’نیٹ میٹرنگ‘ نظام کو متعارف کروایا تھا۔ اس نظام کے ذریعے صارفین اپنے گھر پر دیگر ذرائع سے بجلی پیدا کرسکتے ہیں اور جو بجلی استعمال سے زیادہ اضافی بجلی واپس گرڈ کو فروخت کرسکتے ہیں۔

2010ء تک ہماری بیوروکریسی کے بڑے بڑے حلقوں نے اس بارے میں سنا تک نہیں تھا۔ 2015ء میں اس نظام کو متعارف کیے جانے کے بعد اگلے 2 برسوں کے دوران نیٹ میٹرنگ لائسنس کے لیے موصول ہونے والی متعدد درخواستوں میں سے ایک بھی پراسس نہ ہوسکی۔

لیکن آج سیکڑوں درخواستوں پراسس کی جاچکی ہیں جبکہ درخواستوں کی تعداد تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے اور پراسسنگ کا دورانیہ بھی زبردست انداز میں گھٹتا جا رہا ہے۔

اس عمل میں تیزی کس طرح لائی جائے؟

اس کے لیے وزارتِ توانائی کو تقسیم کار کمپنیوں کو مختلف طریقوں سے ترغیبی رعایت دینی ہوگی تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ میٹرنگ لائسنس جاری کریں۔ یہ وزارت تقسیم کار کمپنیوں، بینکوں اور Alternate Energy Development Board کے معیار کے حامل سولر پینلز کے باضابطہ سپلائرز کے درمیان شراکت داری قائم کرنے میں مدد فراہم کرتے ہوئے یہ کام کرسکتی ہے۔

بینک جس طرح گاڑی خریدنے کے لیے قرضہ دیتا ہے اسی طرز پر گھر میں شمسی ٹیکنالوجی کی تنصیب کے لیے سرمایہ فراہم کرے گا جو صارف کے بجلی کے بلوں کے ذریعے وصول کیا جائے گا۔

تاجر ٹیکنالوجی، تنصیب اور بعد از فروخت سروس فراہم کرے گا۔

تقسیم کار کمپنی ماہانہ بجلی کے بلوں کے ذریعے اس اسکیم کی تشہیر کرے گی جس میں صارف کو بتایا جائے گا کہ آپ کو شمسی توانائی کی تنصیب کے لیے پیشگی رقم ادا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، بینک قرضے کی صورت میں اخراجات برداشت کرے گا جسے آپ تنصیب کے بعد ہونے والی اپنی بچتوں سے ادا کرسکتے ہیں۔

پھر اس مرحلے کے بعد جو بھی بچت ہو، صارف اپنی مرضی کے مطابق قرضہ ادائیگی پلان بنائے اور ابتدائی ایک یا 2 برسوں میں اس قرض کو واپس کردیں، اور جب یہ قرض ختم ہوجائے تو پھر اس بچت کو اپنی مرضی سے جہاں دل چاہے وہاں خرچ کرے۔

تقسیم کار کمپنیوں کو یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ جتنے یونٹ آپ گھر کی چھت سے شمسی توانائی سے حاصل کرتے ہیں اتنے ہی یونٹ گرڈ اسٹیشن سے کم پیسوں پر خریدے جائیں۔ انہیں اپنی وصولیاں گھٹانے کے لیے اہداف دیے جانے چاہئیں اور مناسب پرفامنس بونسز کے ساتھ ان پر زور دینا چاہیے کہ وہ اپنے دستیاب سرمایے سے ہی اپنا کام جاری رکھنے کی کوششیں کریں۔

لاکھوں ہم وطنوں کے گھروں میں قابلِ تجدید توانائی انقلاب کی آمد خوشحالی کی طرف ایک قدم ثابت ہوگا اور مستقبل میں اس کے توانائی شعبے میں دیرپا مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

ہمارے پاور سیکٹر کو لاحق بڑی بڑی مشکلات، جیسے مسلسل بڑھتے ہوئے گردشی قرضے، محض اصلاحات کے ذریعے حل نہیں ہوں گے، کیونکہ ذاتی مفادات کی قوت، اس قدر طاقتور ہے کہ بغیر اٹھا پٹخ کیے ریاست کوئی کام انجام نہیں دے سکے گی، پھر چاہے وہ بیوروکریسی ہو، بڑے بڑے ریکٹس یا پھر بجلی پیدا کرنے والے بڑے نجی کارخانے کے ذاتی مفادات ہوں۔

یہ دائمی مسائل اس وقت ہی دُور ہوں گے جب ٹیکنالوجی پورے نظام کی فرسودگی کو دُور کرے گی، ٹھیک جس طرح موبائل فون ٹیکنالوجی نے بڑے پیمانے پر قائم لینڈ لائن ٹیلی فون انفرااسٹرکچر کو متروک بنا دیا تھا۔ گردشی قرضے کے ابھار کو کچلنے کے لیے اصلاحات کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ کیوں نہ بڑے پیمانے پر شمسی ٹیکنالوجی کے انتصاب پر بھی زور دیا جائے؟


یہ مضمون 20 فروری 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

خرم حسین

صحافی ماہر معیشت اور کاروبار ہیں

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : khurramhusain@

ان کا ای میل ایڈریس ہے: khurram.husain@gmail.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔