پاکستان

چوہدری شجاعت کی وزیراعظم کو خوشامدیوں سے نجات حاصل کرنے کی تجویز

ماضی میں نوازشریف کو بھی خودپسندی میں مبتلا ہونے پر خبردار کیا تھا لیکن انہوں نے دھیان نہیں دیا، صدر مسلم لیگ (ق)

لاہور: پاکستان مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت نے وزیراعظم کے قریبی ساتھیوں کے حوالے سے بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت اس وقت تک اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ (ڈیلیور) نہیں ہوسکتی جب تک اپنے اردگرد موجود ’خوشامدیوں اور منافقوں‘ سے نجات نہ حاصل کرلے۔

خیال رہے کہ اس بیان سے محض ایک ہفتہ قبل ہی یہ اعلان سامنے آیا تھا کہ حکومت کے اتحادیوں کے ساتھ اختلافات ختم ہوگئے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ دوسری مرتبہ ہے کہ وفاق اور صوبہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی اہم اتحادی جماعت پی ایم ایل کیو نے وزیراعظم کے قریبی ساتھیوں پر انگلی اٹھائی ہے اور انہیں حکومت چلانے میں پی ٹی آئی کی ناکامی کا ذمہ دار قرار دیا ہے اور اس وقت یہ پیغام بڑا واضح لگتا ہے۔

عمرہ کی ادائیگی کے بعد سعودی عرب سے واپسی پر چوہدری شجاعت کا کہنا تھا کہ ’عمران خان کے ارادے اچھے ہیں لیکن انہوں نے (دوسروں کی طرح) سیاسی داؤ پیچ نہیں سیکھے، میں انہیں ایک مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ اپنے ارد گرد موجود خوشامدیوں اور منافقوں سے دور رہیں اور انہیں اپنے آس پاس نہ رہنے دیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی، مسلم لیگ (ق) کے درمیان مذاکرات کامیاب

ان کا مزید کہنا تھا کہ میں نے ماضی میں نواز شریف کو بھی خودپسندی میں مبتلا ہونے پر خبردار کیا تھا لیکن انہوں نے دھیان نہیں دیا، دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ خوشامدی جو نواز شریف کے ساتھ تھے آج بھی اقتدار میں ہیں۔

مسلم لیگ (ق) کے صدر نے کہا کہ انہوں نے جنرل پرویز مشرف کو بھی مشورہ دیا تھا کہ مدارس کو طالبان سے منسلک نہ کیا جائے، ’6 ماہ تک مشرف نے میری نصیحت پر عمل کیا اور اس کی جگہ انتہاپسندوں کا لفظ استعمال کیا اس کے بعد انہوں نے مدارس کے طلبہ کو طالبان کہنا شروع کردیا تھا'۔

قبل ازیں مسلم لیگ (ق) نے کہا تھا کہ وزیراعظم کی ٹیم میں کچھ ’سادہ لوح کردار موجود ہیں جو انہیں درست مشورہ نہیں دے سکتے۔

اس ضمن میں پی ایم ایل کیو کے ذرائع نے ڈان کو بتایا تھا کہ گجرات کے چوہدری، پی ٹی آئی حکومت میں ان عناصر سے خوش نہیں جنہوں نے وزیراعظم اور مسلم لیگ (ق) کی قیادت کے درمیان فاصلے پیدا کرنے کی بھرپور کوششیں کیں۔

مزید پڑھیں: مسلم لیگ (ق) پنجاب کی 'اعلیٰ بیوروکریسی' میں اپنے حصے کیلئے کوشاں

ذرائع کا کہنا تھا کہ ’مسلم لیگ (ق) کو یقین ہے کہ اس طرح کے عناصر وزیراعظم کو ان کی جماعت کی قیادت کے بارے میں غلط معلومات دے کر ان (وزیراعظم اور چوہدریوں) کے درمیان بھروسے میں کمی پیدا کرتے ہیں‘۔

پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) میں اختلاف کا معاملہ

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ دونوں حکومتی اتحادیوں کے درمیان اختلافات اس وقت کھل کر سامنے آئے تھے جب مسلم لیگ (ق) کے وزیر ہاؤسنگ طارق بشیر چیمہ نے کابینہ اجلاس میں شرکت نہ کر کے حکومت سے راہیں جدا کرنے کا عندیہ دیا تھا۔

رپورٹس تھیں کہ گجرات کے چوہدری برادران، چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی کی جماعت پنجاب کی 'اعلیٰ بیورو کریسی' میں اپنا حصہ حاصل کرنے کی کوشش کررہی تھی جو بظاہر وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے دائرہ اختیار میں نہیں۔

جس پر وزیراعظم کی ہدایت پر پارٹی رہنما جہانگیر ترین کی سربراہی میں ایک کمیٹی نے مسلم لیگ (ق) کی قیادت سے مذاکرات کیے تھے جس میں تحریک انصاف نے وفاق اور پنجاب میں پی ایم ایل کیو کے ایک، ایک وزیر کو بااختیار بنانے پر رضامندی کا اظہار کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: کیا تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) کے اتحاد کو خطرہ ہے؟

اس کے ساتھ ساتھ گجرات، چکوال، بہاولپور اور ملکوال، پھلیہ اور ڈسکہ تحصیلوں میں انتظامی اختیارات میں شراکت داری کا بھی کہا گیا تھا۔

تاہم حکومت اور اہم اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کے تعلقات میں ایک مرتبہ پھر اس وقت دراڑ آئی جب عمران خان نے پنجاب اور مرکز میں اتحادی جماعت کے انتظامی و ترقیاتی مسائل کے حل کے لیے جہانگیر ترین کی قیادت میں کمیٹی کو تبدیل کردیا تھا۔

کمیٹی کے تبدیل ہونے کے بعد مسلم لیگ (ق) کی قیادت نے متعدد فیصلوں کا مطالبہ کیا تھا جس میں جہانگیر ترین کی کمیٹی سے طے پانے والے بیروکریسی کے ذریعے انتظامی اختیارات کا نفاذ بھی شامل ہے۔

نئی کمیٹی کے قیام کے بعد تحریک انصاف سے مذاکرات کرنے والے چوہدری پرویز الٰہی نے معاہدے پر عمل درآمد نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور حکومت کو اس پر عمل درآمد کے لیے ایک ہفتے کی مہلت دی تھی۔

مزید پڑھیں: حکومت اور مسلم لیگ (ق) کے مذاکرات جمود کا شکار

مسلم لیگ (ق) کے رہنما نے خبردار کیا تھا کہ اگر ان سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے گئے تو وہ حکومت سے اتحاد کے فیصلے پر نظر ثانی کریں گے۔

بعدازاں وفاقی وزیر شفقت محمود نے ذاتی دورہ کرکے چوہدری پرویز الٰہی سے پارٹی کے تحفظات پر غیر رسمی گفتگو کی تھی۔

جس کے بعد 10 فروری کو حکمراں جماعت پی ٹی آئی اور اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ق) کے درمیان مذاکرات کے بعد معاملات طے پانے کا اعلان سامنے آیا تھا۔

علما نے پولیو سے بچاؤ کی ویکسین کو شریعت کے مطابق قرار دے دیا

چین میں پھنسے پاکستانی طلبہ کے والدین کا حکومت کے خلاف احتجاج

امید ہے بھارت، پاکستان کی طرح کشمیر پر مثبت جواب دے، برطانوی رکن پارلیمنٹ