وہ 36 سال کا تھا اور پچھلے ایک سال سے لوگوں سے اپنی عمر چھپاتا آرہا تھا۔ دراصل گزشتہ سال جب اس نے آفس میں اپنے ایک ساتھی کو 35 سال کا بتایا تو وہ بہت ہنسا اور کہا کہ اس نے زندگی میں پہلی بار 35 سال کا کنوارہ لڑکا دیکھا ہے، وہ دکھی ہوگیا اور تب اس نے فیصلہ کیا تھا کہ آئندہ وہ کسی کو اپنی عمر نہیں بتائے گا۔
اسے نیند آگئی تو اس نے خواب میں دیکھا کہ وہ صحرا میں پانی کی تلاش میں اِدھر اُدھر بھاگ رہا ہے۔ پھر اسے ایک قافلہ دکھائی دیا جن کے پاس پانی کے بھرے مشکیزے تھے۔ وہ دوڑ کر ان کے پاس گیا لیکن جوں جوں وہ قافلے کے پاس جاتا ہے، وہ لوگ اور دُور ہوجاتے۔ وہ انہیں پکارتا رہا کہ رکو ورنہ میں پیاس سے مرجاؤں گا لیکن وہ لوگ آگے چلتے گئے حتٰی کہ وہ چیخ مار کر اُٹھ بیٹھتا ہے۔ رات آدھی سے زیادہ بیت چکی تھی اور کمرے میں گھڑی کی ٹِک ٹِک کے سوا کوئی آواز نہیں تھی۔ اس نے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر دیکھا تو وہ بخار سے تپ رہا تھا۔
اس قدر سرد رات میں بھی اسے پسینے آرہے تھے۔ اس کی سوچوں کا رُخ پھر سارہ کی طرف چلا گیا۔ کاش وہ میرے ساتھ یوں نہ کرتی۔ اس آدمی کو ذرا گمان بھی نہیں تھا کہ سارہ کا ردِعمل یہ ہوگا ورنہ وہ عمر بھر کے لیے یہ اظہارِ محبت ملتوی کردیتا۔ اس کی زندگی کچھ اس ڈھب سے گزری تھی کہ وہ عورتوں کے بارے کچھ زیادہ جان نہیں پایا تھا۔ 3 سال پہلے ایک این جی او میں کام کرتے ہوئے اس کی ملاقات سارہ سے ہوئی تھی اور یہ ملاقات بہت جلد دوستی میں بدل گئی۔
’لیکن مجھے اس کا چہرہ یاد کیوں نہیں آرہا؟ کیا سارے چہرے یونہی آدمی کی یادوں سے نکل جاتے ہیں؟‘، اس نے سوچا اور موبائل میں موجود تصویریں دیکھنے لگا۔ کچھ دن پہلے کی سارہ کی تصویر نظر آئی، کون تھی یہ لڑکی؟ اسے تو وہ بالکل بھی نہیں جانتا تھا۔ پھر اس نے سارہ کی وہی تصویر اپنے موبائل کے وال پیپر کے طور پر لگا دی۔
وہ کمرے میں اکیلا تھا کہ اسے چھت پر کسی کے قدموں کے چاپ سنائی دی۔
’اِس وقت بھلا کون ہوسکتا ہے؟‘، ڈرا ہوا آدمی مزید ڈر گیا۔
کوئی چھت پر تھا آواز ابھی بھی آرہی تھی، پھر کوئی سیڑھیاں اترنے لگا، اتنی خاموشی تھی کہ اس نے چھت کا دروازہ آہستگی سے دھکیلنے اور سیڑھیوں پر قدموں کی چاپ سُن لی تھی۔
’یہ کون ہے اور بھلا مجھ سے کیا چاہتا ہوگا؟‘، اس نے اپنے اوپر سے کمبل سرکایا اور چارپائی سے نیچے ٹھنڈے فرش پر پاؤں رکھا۔ سردی کی ایک لہر اسے اپنے اندر اترتے ہوئے محسوس ہوئی تھی۔ سر بہت بھاری ہورہا تھا اور جسم میں شدید نقاہت اُتر آئی تھی، حالانکہ اس شام وہ بالکل ٹھیک تھا۔ سوچیں آدمی کو کتنی جلدی بوڑھا کردیتی ہیں، ایک شام گزری اور وہ خود کو کئی سال پرانا محسوس کررہا تھا۔ اس نے کمرے کی لائٹ جلالی۔
اب کوئی برآمدے میں چل رہا تھا۔ وہ دروازے کے پاس آگیا اور کان لگا کر آوازوں پر غور کرنے لگا۔
دروازے کے بالکل دوسری جانب کوئی تھا۔ پھر ایک تیز بلیڈ دروازے کے ایک سِرے سے اندر آیا اور لوہے کی چٹخنی کو کاٹنے لگا۔
’افف اب کیا کروں‘، وہ شدید خوفزدہ ہوگیا۔
’ککککون ہے؟‘ اس نے تھوک نگل کر بہت آہستگی سے کہا تھا۔
ذرا دیر کے لیے بلیڈ رک گیا تھا۔ پھر کچھ کھسر پھسر ہوئی، شاید وہ 2 لوگ تھے۔ بلیڈ دوبارہ چلنے لگا۔
’کون ہو تم؟ کیا چاہتے ہو؟‘، وہ چلّایا لیکن بلیڈ بدستور چلتا رہا۔
اس نے کبھی اپنے پاس پستول نہ رکھا کہ اسے کبھی ایسی ضرورت محسوس نہ ہوئی تھی۔ اس نے تکیے کے نیچے سے موبائل نکالا اور پولیس کا نمبر ملانے لگا۔
دوسری طرف جیسے ہی کسی نے فون اٹھایا تو اس نے کہا۔
’جی میری مدد کیجیے، میرے گھر میں ڈاکو گھس آئے ہیں اور دروازہ کاٹ رہے ہیں۔ پتا نوٹ کیجیے، سعادت علی ،مکان نمبر 60‘۔
’مکان نمبر 60‘، دوسری طرف سے آواز آئی۔
’نہیں، 7، 7 کہہ رہا ہوں، پلیز جلدی آئیے، میں خطرے میں ہوں، دروازہ ٹوٹنے والا ہے‘۔
’پتا نوٹ کرلیا اے جی، گھنٹے تک گڈی آندی ہے تے فرتہاڈے ول آوندے ہاں‘، دوسری طرف موجود پولیس والے نے کہا تھا۔
’لیکن ڈاکو گھر میں گھس آئے ہیں‘، اس نے گھبرائے ہوئے لہجے میں فوراً کہا تھا۔
’بس انتظار کرو جی، گڈی تے آجاوے‘۔
اس نے غصے سے فون بند کیا اور دروازے کو گھورنے لگا۔
’تم جو کوئی بھی ہو چلے جاؤ یہاں سے، میں نے پولیس کو فون کردیا ہے، وہ پہنچتے ہی ہوں گے‘، اس نے کہا۔ بلیڈ رُکا، لیکن پھر زیادہ تیزی سے چلنے لگا۔ وہ چٹخنی کو کٹتے ہوئے دیکھ رہا تھا اور سمجھ نہیں پارہا تھا کہ کیسے وہ انہیں روکے، پھر وہ کمرے میں کوئی ایسی چیز ڈھونڈنے لگا جس سے ڈاکوؤں پر حملہ کیا جاسکے لیکن اسی دوران دروازہ کھل گیا اور سامنے 2 نقاب پوش کھڑے تھے جن میں سے ایک کے ہاتھ میں پستول تھا۔
’دیکھو گولی مت چلانا۔ تم نے جو کچھ لینا ہے لے لو‘، اس نے ڈرتے ڈرتے کہا۔
پستول والا آدمی آگے بڑھا اور ایک زوردار گھونسا اس کے منہ پر رسید کیا۔
’بڑا ہوشیار بنتا ہے، پولیس بلاتا ہے؟‘، ڈاکو نے کہا۔
پھر وہ کمرے کی تلاشی لینے لگے، اس کا والٹ میز پر پڑا تھا، وہ اُٹھا لیا، اس کے ہاتھ سے موبائل چھین لیا۔ یہ کون ہے؟ ڈاکو نے موبائل پر وال پیپر دیکھ کر پوچھا۔
محمد جمیل اختر
پاکستان اور انڈیا کے بیشتر اردو اخبارات اور جرائد میں محمد جمیل اختر کے افسانے شائع ہوچکے ہیں، جس میں فنون، ادبیات، ایوان اردو دہلی، ادب لطیف، اردو ڈائجسٹ اور سہ ماہی تسطیر قابل ذکر ہیں۔ افسانوں کی پہلی کتاب ’ٹوٹی ہوئی سڑک‘ 2017 میں شائع ہوئی۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔