افسانہ: 17 سفید بالوں کا المیہ

17 سفید بالوں کا آدمی کی اداسی سے کوئی تعلق نہیں لیکن بعض اوقات آدمی وہ باتیں سوچنے لگتا ہے جن کے بارے میں پہلے کبھی دھیان نہیں گیا ہوتا یہاں تک کہ اس کی زندگی میں ایسے واقعات رونما ہوجائیں جو اسے بہت معمولی باتوں کے بارے میں سوچنے پر مجبور کردیں۔
جیسا کہ یہ آدمی جو اپنے بستر میں لیٹا بخار سے تپ رہا ہے اور اسے ہر تھوڑی دیر بعد اپنے سر کے 17 سفید بال یاد آجاتے ہیں جن کا خیال جھٹک کر وہ سوچوں کا رُخ دوسری جانب موڑ لیتا ہے لیکن بخار کی وجہ سے وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اس شام جس لڑکی سے وہ آخری بار ملا تھا، اس کا چہرہ اس کی یادداشت سے نکل کیسے گیا؟ جب وہ اس کا چہرہ یاد کرنے کی کوشش کرتا ہے تو کبھی اس کی آنکھیں ذہن میں آتیں تو کبھی ناک، لیکن مکمل چہرہ کہیں گڈمڈ ہوگیا تھا۔
ایسا تو نہیں ہونا چاہیے تھا، چہرے تو آدمی کی شناخت ہوتے ہیں اور اگر یہ بھی یادوں سے نکل جائیں تو یادیں کس قدر بے رنگ ہوجاتی ہیں۔ اس کی یادیں بھی بے رنگ ہوگئی تھیں، وہ چہرہ اس کی یادوں سے نکل گیا تھا اور سچ تو یہ ہے کہ اب اس چہرے کا اس کی یادوں سے نکلنا ضروری بھی تھا۔
شام کو جب وہ ایک ریسٹورینٹ میں سارہ کے سامنے بیٹھا تھا تو قدرے پریشان تھا۔ چاہے آپ کی دوستی کتنی گہری ہی کیوں نہ ہو، محبت کا اظہار آدمی کے لیے ایک پریشان کن لمحہ ہوتا ہے۔ جب یہ کہنا پڑتا ہے کہ آپ زندگی کی اس تیز رفتار دوڑ میں تھک گئے ہیں اور آپ کو ایک سہارے کی اشد ضرورت ہے۔ محبت کا اظہار کہیں نا کہیں آدمی کی شکست کا اعتراف بھی ہوتا ہے، سو اس نے ٹوٹے پھوٹے لفظوں کو جوڑ کر سارہ سے اپنی محبت کا اظہار کر ہی دیا تھا۔
اس کا خیال تھا کہ محبت کے اظہار کے لیے اسے کچھ زیادہ پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور دوسرا سارہ یقیناً بہت خوش ہوگی کہ کئی بار وہ اسے بتا چکی تھی کہ وہ اس کا بہترین دوست ہے، لیکن جب اس نے سارہ سے اپنے دل کا حال بیان کیا تو سب کچھ اس کے خیالات کے برعکس ہوا۔ سارہ نے نہ صرف انکار کیا بلکہ اس نے یہ بھی کہا کہ وہ تو اسے صرف ایک اچھا دوست سمجھتی تھی اور اب اس واقعے کے بعد وہ اس سے کسی بھی قسم کا رابطہ نہ رکھے کہ وہ اس کے خیالات جان کر بے حد دکھی ہوئی ہے اور اسے افسوس ہے کہ وہ بھی بالکل ایک روایتی مرد ثابت ہوا ہے۔
وہ یہ کہہ کر چلی گئی۔ روایتی مرد اب اپنے بستر میں لیٹا جب اس کے جانے کے بعد کا منظر یاد کرتا ہے تو سب کچھ دھندلا دکھائی دیتا ہے، مِٹے مِٹے سے نقوش کہ جن میں وہ ریسٹورینٹ کے ویٹر کو بِل دے رہا ہے، میٹرو اسٹاپ پر گاڑی کا انتظار کررہا ہے، وہاں سے اُتر کر گلیوں میں پیدل چلتے ہوئے اپنے مکان کا تالا کھول رہا ہے۔ وہ رات گئے تک جاگتا رہا اور سوچتا رہا لیکن دھند گہری تھی۔
اس روز جب وہ سہ پہر کو سارہ سے ملنے کی تیاری کررہا تھا تو شیشے کے سامنے کھڑے ہوکر اس نے اپنا بغور جائزہ لیا تھا، تبھی اس کی نظر اپنے بالوں کی جانب بھی گئی جہاں چند سفید بال دکھائی دیے۔
’کیا یہ آج ہی سفید ہوئے ہیں یا میں نے کبھی غور نہیں کیا؟‘، اس نے سوچا اور پھر ان سفید بالوں کو گننے لگا۔ ایک، 2، 3 ... 17۔
ہاں وہ 17 سفید بال تھے اس نے 2 بار گنتی کی تھی۔
اپنے سفید بال دیکھ کر اسے سالوں بعد اپنے گاؤں کا ملک مظفر یاد آگیا جو اونچا لمبا سفید شملہ باندھتا تھا اور اس کی بڑی بڑی کالی مونچھیں تھیں۔ 60 سال کی عمر کے باوجود ملک مظفر اپنا کوئی بال سفید نہ چھوڑتا اور اس نے 6 شادیاں کر رکھی تھیں۔ گاؤں کے لوگ اسے دیکھتے اور آپس میں ہمیشہ یہی کہتے کہ مرد اور گھوڑا کبھی بوڑھا نہیں ہوتا۔ اسی لیے ملک مظفر کبھی بوڑھا نہیں ہوگا لیکن 5 سال پہلے جب وہ شہر سے اپنے گاؤں گیا تو اس نے دیکھا کہ ملک مظفر کو اس کے ملازم ویل چئیر پر سیر کروا رہے ہیں۔
یہ والا ملک مظفر 5 سال پہلے والے سے یکسر مختلف تھا۔ جھریوں بھرا چہرہ، آنکھوں کے گرد لٹکی ہوئی جلد، سفید مونچھ اور داڑھی۔ اس روز اسے معلوم ہوا کہ گھوڑوں کا تو نہیں پتا لیکن آدمی ضرور بوڑھا ہوتا ہے۔ شاید اسی لیے اسے اپنے 17 سفید بال دیکھ کر کچھ پریشانی ہوئی تھی۔
’کیا مجھے ان سفید بالوں پر سیاہ رنگ کرا لینا چاہیے؟‘، اس نے خود سے سوال کیا لیکن ابھی تو اس کے پاس وقت نہیں تھا۔ 4 بج چکے تھے اور 5 بجے اس نے سارہ سے ملنے ریسٹورینٹ پہنچنا تھا۔
’سفید بالوں سے کچھ نہیں ہوتا اور دوسرا سارہ مجھے کون سا پہلی بار دیکھ رہی ہے، ہم اتنے اچھے دوست ہیں‘، اس نے اس سوچ کے ساتھ گھر سے قدم نکالے تھے۔
وہ کمرے میں اکیلا تھا کہ اسے چھت پر کسی کے قدموں کے چاپ سنائی دی۔
’اِس وقت بھلا کون ہوسکتا ہے؟‘، ڈرا ہوا آدمی مزید ڈر گیا۔
اب کوئی برآمدے میں چل رہا تھا۔ وہ دروازے کے پاس آگیا اور کان لگا کر آوازوں پر غور کرنے لگا۔
’افف اب کیا کروں‘، وہ شدید خوفزدہ ہوگیا۔
’ککککون ہے؟‘ اس نے تھوک نگل کر بہت آہستگی سے کہا تھا۔
ذرا دیر کے لیے بلیڈ رک گیا تھا۔ پھر کچھ کھسر پھسر ہوئی، شاید وہ 2 لوگ تھے۔ بلیڈ دوبارہ چلنے لگا۔
’کون ہو تم؟ کیا چاہتے ہو؟‘، وہ چلّایا لیکن بلیڈ بدستور چلتا رہا۔
دوسری طرف جیسے ہی کسی نے فون اٹھایا تو اس نے کہا۔
’مکان نمبر 60‘، دوسری طرف سے آواز آئی۔
’نہیں، 7، 7 کہہ رہا ہوں، پلیز جلدی آئیے، میں خطرے میں ہوں، دروازہ ٹوٹنے والا ہے‘۔
’لیکن ڈاکو گھر میں گھس آئے ہیں‘، اس نے گھبرائے ہوئے لہجے میں فوراً کہا تھا۔
’بس انتظار کرو جی، گڈی تے آجاوے‘۔
اس نے غصے سے فون بند کیا اور دروازے کو گھورنے لگا۔
’دیکھو گولی مت چلانا۔ تم نے جو کچھ لینا ہے لے لو‘، اس نے ڈرتے ڈرتے کہا۔
پستول والا آدمی آگے بڑھا اور ایک زوردار گھونسا اس کے منہ پر رسید کیا۔
’بڑا ہوشیار بنتا ہے، پولیس بلاتا ہے؟‘، ڈاکو نے کہا۔
اس کی آنکھیں خوف سے پھٹی جارہی تھیں اور اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
’بیوی ہے تیری؟‘، ڈاکو نے پوچھا۔
’معلوم نہیں، بیوی نہیں ہے، معشوق بھی نہیں ہے، میں نہیں جانتا یہ کون ہے۔‘
’ہاں اس عمر میں اب تیری کیا معشوق ہوگی‘، ڈاکو نے یہ کہا تو اسے اپنے 17 سفید بال یاد آگئے۔
’اظہارِ محبت سے پہلے اپنی عمر اور سفید بال ہی دیکھ لیتے۔‘
پاکستان اور انڈیا کے بیشتر اردو اخبارات اور جرائد میں محمد جمیل اختر کے افسانے شائع ہوچکے ہیں، جس میں فنون، ادبیات، ایوان اردو دہلی، ادب لطیف، اردو ڈائجسٹ اور سہ ماہی تسطیر قابل ذکر ہیں۔ افسانوں کی پہلی کتاب ’ٹوٹی ہوئی سڑک‘ 2017 میں شائع ہوئی۔