عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس ایڈانوم گیبراسس نے چینی حکام کی اس تحقیق کے نتائج بتاتے ہوئے کہا کہ ہر 5 میں سے 4 مریض میں مرض کی شدت معتدل ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا 'ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ نوول کورونا وائرس دیگر کورونا وائرسز بشمول سارز اور مرس جتنا جان لیوا نہیں، اب اس وبا کی تصویر واضح ہونا شروع ہوگئی ہے'۔
اس تحقیق کے دوران چین کے صوبے کے 44 ہزار کیسز کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا اور عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل نے بتایا ' 80 فیصد سے زائد مریضوں میں مرض کی شدت معتدل ہے اور وہ صحت یاب ہوجائیں گے، 14 فیصد کیسز کی شدت زیادہ ہے جو نمونیا اور سانس لینے کی مشکل کا شکار ہیں جبکہ 5 فیصد کیسز سنگین ہیں، جن میں نظام تنفس اور متعدد اعضا کام کرنا چھوڑ رہے ہیں جبکہ 2 فیصد جان لیوا ثابت ہوئے، عمر جتنی زیادہ ہوگی، موت کا خطرہ اتنا زیادہ ہوگا'۔
انہوں نے بتایا کہ بچے اس وائرس سے اس طرح متاثر نہیں ہورہے جیسے بالغ افراد ہورہے ہیں اور اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ ایسا کیوں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نتائج سے سمجھنے کے لیے کچھ خلا موجود ہیں مگر توقع ہے کہ عالمی ادارے کے بین الاقوامی ماہرین ان کو بھرنے کے لیے کام کرسکیں گے۔
ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل نے کہا کہ چین میں نئے کیسز کی تعداد میں کمی آرہی ہے 'اس رجحان کو بہت احتیاط سے لینا ہوگا کیونکہ یہ تبدیل بھی ہوسکتا ہے'۔
انہوں نے بتایا کہ عالمی ادارہ دن رات کام جاری رکھ کر ان ممالک کی مدد کررہا ہے جہاں یہ کورونا وائرس ممکنہ طور پر پہنچ سکتا ہے، وہاں ٹیسٹنگ کٹس اور حفاظتی آلات بھیجے گئے، کمپنیوں کے ساتھ مل کر سپلائی کو مستحکم رکھنا یقینی بنایا جارہا ہے اور طبی ورکرز کو تربیت دی جارہی ہے۔
عالمی ادارے کے ایمرجنسیز ڈائریکٹر ڈاکٹر مائیکل ریان نے بتایا کہ اس وائرس کے پھیلاﺅ کو عالمگیر وبا قرار نہیں دینا چاہیے 'اصل مسئلہ یہ ہے کہ چین سے باہر موثر کمیونٹی ٹرانسمیشن اس وقت ہمارے مشاہدے میں نہیں'۔
ڈبلیو ایچ او میں pandemic and epidemic ڈائریکٹر ڈاکٹر سلویا برائنڈ نے بتایا کہ ادارہ جاپانی ساحل پر کھڑے کروز شپ ڈائمنڈ پرسنز کے حوالے سے جاپانی انتظامیہ کے ساتھ کام کررہی ہے۔
چینی حکام کی نئی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ صوبہ ہوبے میں کورونا وائرس سے اموات کی شرح 2.9 فیصد ہے جبکہ باقی حصوں میں 0.4 فیصد ہے، مجموعی طور پر مریضوں کے مقابلے میں اموات کی شرح 2.3 فیصد ہے۔